سیلاب کی نذر ہونے والا ہنی مون ہوٹل سیاحوں کو اپنی جانب کھینچ لاتا تھا
بشریٰ محسود
جب ہم سوات میں ہنی مون ہوٹل پہنچے تو کافی رات ہو چکی تھی، سوات میں واقع یہ ہوٹل تمام تر سہولیات سے آراستہ تھا ۔یہ ہوٹل 1984 میں بنایا گیا تھا اس میں ایک سو ساٹھ کمرے تھے سوات میں آنے والے سیاحوں کی پہلی ترجیح ہنی مون ہوٹل ہی ہوتا۔
اگلی صبح ناشتہ کرنے کے لئے ہم باہر بیٹھ گئے ایک طرف دریائے سوات کا شور تو دوسری طرف تازہ ہوا یہ سارے خوبصورت نظارے ہماری بھوک میں اضافہ کر رہے تھے ناشتہ کرنے کے بعد ہم روانہ ہوئے اور ایک جیپ میں بیٹھ گئے کیوں کہ کالام سے آگے کا سفر اور راستہ کچا ہونے کی وجہ سے جیپ میں سفر کرنا ہی محفوظ تھا مہوڈنڈ جھیل تک جاتے ہوئے ہم لوگ راستے میں جگہ جگہ اترتے اور تصویریں بنواتے کیونکہ ہر نظارہ بہت ہی خوبصورت ہوتا تھا جو سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتا تھا اور لوگ ان یادوں کو ہمیشہ کے لئے تصویروں میں محفوظ کرتے۔
ایک رات وہاں گزارنے کے بعد اگلے دن جب ہم ہنی مون ہوٹل واپس آئے تو دن کی روشنی میں وہاں کا نظارہ ہی کچھ اور تھا کالام بازار میں شاپنگ کرنے کے بعد جب ہم ہوٹل کے بننے والے نیو بلاک کے قریب دریائے سوات کے کنارے تصویریں بنانے لگے تو وہاں موجودہ ہمارے جیپ کے ڈرائیور نے کہا کہ باجی یہاں تصویریں احتیاط سے بنائیے گا کیوں کہ یہ بہت خون خوار دریا ہے اور یہاں کئی جوڑے(افراد ) دریا میں گر چکے ہیں۔
اس نے کہا کہ کچھ عرصہ پہلے یہاں ایک فیملی آئی تھی پنجاب سے وہ لوگ تصویریں بنا رہے تھے کہ لڑکی کا پاؤں پھسل گیا اور وہ پانی میں گر کے مر گئی اور تین ماہ پہلے یہاں ایک گاڑی دریائے سوات میں گر گئی تھی اور اس میں موجود لوگ بھی مر گئے تھےکیونکہ پانی کا بہاؤ بہت تیز ہوتا ہے۔
دریائے سوات کو سوات سند بھی کہتے ہیں یہ کالام کے راستے آتا ہے یہ دریاب(اوش خوڑہ اورسنگرام خوڑہ )سے بنا ہے (اوپر سے جو پانی بہہ کر آتا ہے اس کو خوڑہ کہتے ہیں )یہ کالام کے راستے سے گزرتا ہے اس کی لمبائی 240 کلومیٹر ہے 13000ہزار سیکڑ فیٹ کی رفتار سے یہ دریا میدانہ سے ہوتا ہوا دریائے کابل میں گرتا ہے۔
200 ہزار سال پہلے اس کا نام پوڈیانہ تھا اور پھر سواستوس پڑ گیا اور پھر سوات نام بن گیا۔
یہ علاقہ گیارہویں صدی تک بہت پرامن علاقہ تھا وادی سوات اپنی قدرتی خوبصورتی کی وجہ سے نہ صرف ملکی بلکہ غیر ملکی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے۔
دریائے سوات کے کنارے واقع ہنی مون ہوٹل پراگر غور کیا جائے تو حیرت بھی ہوتی ہے کہ کبھی بھی یہ ہوٹل دریا کے پانی کی لہروں کی نذر بھی ہو سکتا ہے اور مجھے اسی سوچ نے یہاں کے سٹاف امجد خان سے سوال کرنے پر مجبور کیا
اتنے خطرناک مقام پر ہوٹل بنایا ہے اگر کبھی سیلاب آیا تو پھر کیا ہوگا ؟
تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم لوگوں نے اس کے گرد ایک سیفٹی وال بنایا ہے جس کی وجہ سے ہوٹل کو نقصان نہیں پہنچے گا اور حکومت سے این او سی مانگ رہے ہیں جو کہ ابھی تک حکومت نے اجازت نہیں دی۔
حالیہ سیلاب کی وجہ سے ہنی مون ہوٹل کا نیو بلاک دریائے سوات کی نذر ہوگیا اس میں 38 کمروں کو نقصان پہنچا ہوٹل جو کہ تین حصوں پر مشتمل تھا اس میں 25 فیصد حصہ دریا برد ہوگیا بقول انتظامیہ اس بلاک کے گرد دیوار نہیں بنائی گئی تھی کیونکہ حکومت این او سی نہیں دے رہی تھی اس لیے اس کو نقصان پہنچا جبکہ باقی دو فیصد حصے کے گرد سیفٹی وال موجود ہے جس کی وجہ سے وہ عمارت محفوظ رہیں۔
عمارت کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچا لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا جس کی بڑی وجہ وہاں کے مقامی لوگوں نے پانی کے بہاؤ سے ہی اندازہ لگا لیا تھا کہ پانی کا بہاؤ مزید تیز ہوگا مطلب سیلاب آئے گا تو بر وقت ہوٹل خالی کرایا اور سیاحوں کو مقامی آبادی اپنے گھروں میں لے گئی کیوں کہ رابطہ منقطع ہو گیا تھا روڈ بند ہوگئے تھے۔
اسٹاف کا مزید کہنا تھا کہ یہ ہوٹل لوگوں کی ڈیمانڈ پر بنا ہے اگر حکومت این او سی جاری کرتی ہے تو سیفٹی وال بنا لیں گے تاکہ بلڈنگ کے باقی ماندہ دو حصوں کو محفوظ بنایا جا سکے اور مزید نقصان سے عمارت کو محفوظ کر سکیں۔ میرے ذہن میں اس ہوٹل کی خوبصورتی اور وہ منظر آج بھی تازہ ہے مگر حالیہ سیلاب سے ہوٹل مالکان کو بھی اندازہ ہوگیا ہوگا کہ ہوٹل بناتے وقت کن کن باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ انسانی جانیں بہت قیمتی ہیں۔