بلاگزلائف سٹائل

”خاتون کی باری آئی تو وہ لوگ اڑ گئے کہ خاتون میت والی چارپائی پہ نہیں بیٹھے گی”

ہمارے گمنام ہیروز جو اس موقعے پر اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کر متاثرین کی مدد کر رہے ہیں

حمیرا علیم

پاکستان میں اس وقت ایمرجنسی نافذ ہے۔ تقریباً اسی فیصد علاقے زیرآب ہیں اور 4 کروڑ لوگ مدد کے منتظر ہیں۔ ہمارے بہت سے ایسے گمنام ہیروز ہیں جو اس موقعے پر بغیر کسی لالچ کے اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کر متاثرین کی مدد کر رہے ہیں۔ انہی میں سے ایک دیر بالا کے فرمان اللہ ہیں جو کہ جماعت اسلامی کے عہدیدار اور الخدمت کے رضاکار ہیں۔

جب 26 اگست کو سیلابی ریلا آیا تو وہاں کے لوگ محفوظ مقام پہ منتقل ہو گئے سوائے ایک خاندان کے جو مال مویشی چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا تھا۔ اس گھر کے اردگرد پانی اکٹھا ہوا تو اہل خانہ جن میں ایک خاتون، ایک بچہ ایک بزرگ اور دو نوجوان شامل تھے، انہیں خطرے میں دیکھ کر اہل علاقہ نے مدد کرنی چاہی مگر پانی دیکھ کر خوفزدہ ہو گئے۔

فرمان اللہ بتاتے ہیں: "لوگ جذباتی ہو چکے تھے اور پانی میں کود جانا چاہتے تھے۔ میں اس آپریشن کی نگرانی کر رہا تھا اور کسی کو ایسا فیصلہ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا تھا جو اس کی زندگی کو خطرے میں ڈال دے۔ اس موقعے پر جو کچھ کرنا تھا مجھے ہی کرنا تھا اور اس کی ذمہ داری بھی قبول کرنی تھی۔ میری ذمہ داری تھی کہ کسی اور سے قربانی مانگنے سے پہلے میں خود قربانی دیتا۔ چنانچہ میت لے جانے والی چارپائی کا جھولا بنایا گیا۔ جب اسے رسی سے باندھ کر دھکیلا گیا تو یہ جھول گئی۔ یہ خطرہ بھی تھا کہ کہیں الٹ نہ جائے۔ اور اگر یہ الٹ جاتی تو کچھ بھی نہ بچتا۔”

وہ بتاتے ہیں کہ جب وہ پہلی بار مکان تک پہنچے تو لوگ سہمے ہوئے تھے اور کہہ رہے تھے: "ہم اپنی جگہ نہیں چھوڑیں گے۔ سیلابی پانی تو شاید ہمیں بہا کر نہ لے جائے مگر اس چارپائی سے نیچے گرے تو نہ بچ پائیں گے۔ میں انہیں اوپر سے آنے والے ایک اور ریلے کے بارے میں نہیں بتا سکتا تھا۔ منت سماجت کر کے انہیں تیار کیا اور سب سے پہلے بزرگ کو ساتھ بٹھایا۔ وہ بار بار حرکت کرتے تو توازن بگڑ جاتا مگر ان کو محفوظ مقام تک پہنچا ہی دیا۔ چار گھنٹے میں بچے پھر نوجوانوں کو وہاں سے نکالنے کے بعد خاتون کی باری آئی تو وہ لوگ اڑ گئے کہ خاتون میت والی چارپائی پہ نہیں بیٹھے گی۔ بات یہاں تک بڑھی کہ انہیں واپس چھوڑنے کا کہا گیا۔ اس موقعے پہ انتظامیہ کے افسران پہنچے اور کہا کہ اگر خاتون کو نہ نکالا گیا تو ان پہ مقدمہ درج کیا جائے گا۔ میں نے کہا یہ بالکل میری ماں جیسی ہیں اور اپنی ماں کی مدد کو میں ضرور جاؤں گا۔ اس پر ان کے دل نرم ہوئے تو میں خاتون کو لے آیا۔ کمراٹ سے آنے والے سیلابی ریلے نے اسی مقام پہ سب سے زیادہ تباہی مچائی۔”

سوات میں ریسکیو 1122 کے اہلکاروں نے رات کے وقت دس لوگوں کو بچایا۔ ریسکیو کے ضلعی افسر ملک شیردل خان نے بتایا: ”سیلابی ریلا آیا تو اس کے بعد خوازہ خیلہ سے لوگ لکڑیاں چننے اور مچھلیاں پکڑنے کے لیے متاثرہ مقام پر پہنچے ۔دریا کا پانی چڑھا تو 160 لوگ وہاں پھنس گئے جنہیں نکالنے کے لیے ہیلی کاپٹر استعمال کیا گیا۔ لیکن دس لوگ ایسے مقام پر تھے کہ ہیلی کاپٹر پہنچ نہیں سکتا تھا۔ یہ لوگ دو دو فٹ پانی میں گھر چکے تھے۔ پانی کا بہاؤ اور رفتار بڑھتے جا رہے تھے لہذا اندھیرے میں ہی آپریشن کا فیصلہ کیا گیا جس کے لیے تین ماہر تیراکوں اور ڈرائیور کو بھیجا گیا جب کہ ہم سب ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے دو کشتیوں کے ساتھ الرٹ تھے۔”

اجمل بتاتے ہیں کہ ان کے پاس جدید بوٹ بھی تھی مگر دریا میں بہہ کر آنے والے درخت سے ٹکرا کر کشتی الٹ گئی، "ہم نے لائف جیکٹس پہن رکھی تھیں۔ اس صورتحال میں ہماری اپنی زندگیاں بھی خطرے کا شکار ہو چکی تھیں۔ موبائل فون پانی میں گرنے کی وجہ سے کنارے پر ساتھیوں سے رابطہ بھی نہیں کر سکتے تھے۔ تاہم اس موقع پر ہم چاروں نے ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھایا اور تربیت کے مطابق زنجیر بنا لی۔ ہم نے آپس میں رسیاں بھی باندھی ہوئی تھیں اور اب ہم ساتھ چل رہے تھے۔ اور کشتی کو بھی کسی مقام تک پہنچانے کی کوشش کر رہے تھے جہاں اسے سیدھا کر کے متاثرین کی مدد کر سکیں۔”

ان کا کہنا تھا: "یہ زندگی اور موت کے درمیان جنگ تھی۔ ہمارے ساتھی جنید اور راشد زخمی بھی ہو چکے تھے مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ تیز پانی میں چلتے ہوئے ہمیں ایک چھوٹی سی جگہ ملی۔ ہم نے وہاں پہ کشتی سیدھی کی اور دوبارہ سفر شروع کیا۔ کچھ دیر میں دس لوگ مل گئے۔ پانی ان کی ناف تک پہنچ رہا تھا۔ وہ انتہائی خوفزدہ تھے۔ ہم نے انہیں حوصلہ دیا، رسیاں باندھیں اور ایک ایک کر کے کنارے تک پہنچایا۔ ان سب نے کہا جب رات کا اندھیرا پھیلا تو ہم لوگ موت کے منتظر تھے مگر آپ بچانے والے بن کر آئے ہو۔”

کے پی میں سیاحوں کی بڑی تعداد کمراٹ، کالام، جھیل مہوڈنڈ میں پھنس گئی تھی۔ فوج اور مقامی آبادی نے انہیں بچایا۔ پنجاب کے ضلع شیخوپورہ کے محمد اسامہ بتاتے ہیں: "ہم لوگ دو دن تک محفوظ مقام پر رہے اس دوران مقامی آبادی نے ہمیں کھانا اور رہائش فراہم کیا۔ سیاحوں کی بڑی تعداد کی وجہ سے اشیائے خوردونوش کی قلت بھی ہوئی مگر کسی نہ کسی طرح گزارا ہوتا رہا۔ پھر ہمیں دریا کے پار پہنچایا گیا۔ مقامی آبادی اور سیاحتی پولیس نے پلوں کی بحالی کا کام بھی کیا۔ اگر مقامی لوگ نہ آتے اور ہمیں محفوظ مقامات پر منتقل نہ کیا جاتا تو بہت سارے سیاحوں کی زندگی کو خطرات لاحق ہو سکتے تھے۔ ہم جان بچانے کے لیے مقامی لوگوں کے مشکور ہیں۔”

ایسے بہت سے جانباز ہیں جو مختلف مقامات پہ متاثرین کی مدد کر رہے ہیں۔ اگرچہ میڈیا ان تک نہیں پہنچ پایا مگر اللہ کے ہاں ان کی کوششیں لکھی جا رہی ہیں۔ اللہ تعالٰی ایسے سب ہیروز کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور اجر عظیم عطا فرمائے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button