سیلاب 2022: گھر کے ہوتے ہوئے بے گھر ہونا بہت عجیب لگتا ہے
خالدہ نیاز
بچوں کے خوفزدہ چہرے، خواتین کی آنکھوں میں خوف اور پلکوں سے چھلکتے آنسو، مردوں کی بھاگ دوڑ ہر طرف بے یقینی سی صورتحال جیسے قیامت صغریٰ کا منظر ہو، یہ سب میں پہلی بار نہیں دیکھ رہی تھی اس سے پہلے بھی یہ مناظر دو ہزار دس میں دیکھ چکی ہوں لیکن تب شاید میں چھوٹی تھی اس لیے لوگوں کا درد اور تکلیف اس طرح سے محسوس نہیں کیا تھا جس طرح اس بار کیا اور شاید یہ مناظر ہمیشہ کے لیے میرے ذہن میں نقش رہیں۔
سیلاب آ رہا ہے سیلاب آ رہا ہے بس یہی سننے کو مل رہا تھا، میں اسلام آباد سے ٹریننگ لینے کے بعد اس امید پہ گھر آئی تھی کہ گھر میں بھتیجیوں، بہن بھائیوں کو قصے سناؤں گی اور اس کے بعد آرام سے لمبی تھان کر سو جاؤں گی لیکن شاید قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا کیونکہ جیسے ہی میں گاؤں کی حدود میں داخل ہوئی، لوگ گھروں سے باہر نکلے ہوئے تھے اور دریائے کابل کے پانی کو بھی دیکھ رہی تھی جس کی بے رحم موجیں ہمارے گھروں تک پہنچنے کے لیے بے تاب اور اس انتظار میں تھیں کب گھروں میں داخل ہو کر لوگوں کو گھروں سے نکال باہر پھینکیں۔
خیر جیسے ہی گھر پہنچی انکل، چاچیاں ان کے بچے اور میرے ابو سب دروازے کے نزدیک کھڑے تھے۔ سلام دعا کے بعد افسوس کے ساتھ کہا کہ سیلاب آ گیا ہے بس کپڑے اور ضروری سامان اٹھاؤ کسی محفوظ مقام پر منتقل ہونا ہے۔ کمرے میں پہنچ کر امی کے ساتھ سامان محفوظ جگہوں پر رکھنے لگی، وقت کم تھا اور سامان زیادہ کیونکہ گھر میں سب کچھ ہوتا ہے کیا کیا اٹھاتے، اتنے میں چھوٹا کزن آیا کہ نکلو سیلاب کا پانی تیزی سے گھر کی جانب پہنچ رہا ہے بس پھر کیا تھا بچے بڑے سب سوچے سمجھے بغیر گھروں سے نکل پڑے لیکن میں اور امی وہیں پر رہیں کیونکہ سامان ابھی تک پڑا تھا اور گاڑی کا ملنا بھی تو مشکل کام تھا کیونکہ سب تو لوگوں نے بک کرا لی تھیں لہذا ہم نے انتظار کیا گاڑی کا۔
دو ہزار دس میں جب سیلاب آیا تھا تب میں بھی چھوٹی تھی لیکن وہ تلخ یادیں آج بھی یاد ہیں کیونکہ ہم خالہ کے گھر گئے تھے اور ساری عورتیں رو رہی تھیں تب کسی نے سامان بھی نہیں آٹھایا تھا بس جان کے لالے پڑے تھے سب کو اس کے بعد جب سیلاب کا پانی گھروں سے نکلا اور لوگ گھروں کو واپس گئے تو برا حال تھا نہ بجلی تھی نہ بستر نہ کھانے کو کچھ تھا نہ پہننے کو کپڑے تھے، کئی لوگ جان سے بھی گئے تھے، ایک عورت کی لاش چند سال بعد ملی تھی۔ مجھے یاد ہے خواتین کئی مہینوں تک گھروں میں سیلاب کا خراب کیا ہوا سامان دھوتی رہی لیکن سامان سارا خراب ہو چکا تھا۔
اس بار جب گھر سے نکلی تو سوچنے پر مجبور ہوئی کہ آخر سیلاب ہمارے علاقے میں ہی کیوں آتے ہیں یا صرف غریب لوگ ہی کیوں آفتوں سے متاثر ہوتے ہیں۔ گھر کو خیرباد کہنا بھی آسان نہیں تھا کیونکہ گھر کے ہوتے ہوئے بے گھر ہونا بہت عجیب لگتا ہے۔ خیر دو دن رشتہ داروں کے گھر گزارنے کے بعد گھر گئے جہاں پھر بھی بے یقینی کی صورتحال تھی کیونکہ نیوز میں بار بار آ رہا تھا کہ سیلاب کا ایک اور ریلہ بھی عنقریب دریائے کابل سے گزرے گا اور اس کا نقصان زیادہ ہو گا، گھر گئے تو راستے میں بہت پانی تھا اور پانی گھر میں بھی موجود تھا، مجھے شروع سے پانی سے ڈر لگتا ہے لیکن سیلاب کے پانی کو دیکھ کر اور بھی ڈر گئی کیونکہ اس بار سیلاب میرے علاقے میں ہی نہیں میرے ملک کے باقی علاقوں میں بھی کئی جانوں کو نگل گیا۔ اس سیلاب نے میرے علاقے کے لوگوں سے ان کے رزق کا واحد وسیلہ، ان کی کھڑی فصلیں چھین لی ہیں۔
بعض لوگوں کو شاید لگتا ہو کہ سیلاب ہی تو آیا ہے کیا ہوا ہے لیکن یہ صرف سیلاب نہیں آتا لوگوں سے مسکان اور خوشیاں چھین لیتا ہے۔ کئی لوگوں سے اپنے چھین لیتا ہے۔ کئی لوگوں سے سکون چھین لیتا ہے، کئی خاندانوں سے چھت اور کئیوں کے منہ سے نوالہ چھین لیتا ہے۔ غریب لوگوں نے بہت مشکل سے اپنے لیے گھر بنائے ہوتے ہیں یہ ظالم سیلاب ایک ہی لمحے میں اس کو زمین بوس کر دیتا ہے، یہ کسی کی جوانی اور کسی کی غریبی کو بھی نہیں دیکھتا۔ لوگ تو کچھ رقم یا راشن دے کر فوٹو شوٹ کروا کے چلے جاتے ہیں اور سیلاب کا پانی بھی کچھ دنوں بعد ختم ہو جاتا ہے لیکن اپنے پیچھے بہت ساری داستانیں چھوڑ جاتا ہے۔