پاک بھارت دشمنی: یہ سب کب تک چلے گا؟
سدرہ ایان
جہاں انسان اور انسانیت کے بیچ مذہب آ جائے، جہاں کسی کو تکلیف میں دیکھ کر مذاق اڑایا جائے یا جہاں کسی کو مصیبت میں دیکھ کر اسے مزید مصیبت میں مبتلا ہونے کی بددعا دی جائے تو سمجھ جاؤ کہ دل و دماغ میں اتنا زہر بھرا ہوا ہے کہ انسان اشرف المخلوقات سے جانور بن چکا ہے۔ اور ایسے ہی کئی جانور ہمارے پاکستان اور پڑوسی ملک، جسے اکثر دشمن ملک کہا جاتا ہے، میں موجود ہیں۔
ہوا کچھ یوں کہ کل میں نے بھارتی چینل پر ایک نیوز پیکج دیکھا جو کہ پاکستان میں سیلابی صورتحال پر بنا ہوا تھا، عادت کے مطابق میں کمنٹس سیکشن میں گئی جہاں کچھ لوگوں نے لکھا تھا کہ دشمنی اپنی جگہ لیکن انسانیت کے ناطے پاکستانیوں کے لیے دعا کرنی چاہیے اور اس مشکل گھڑی میں ان کا ہر طرح سے ساتھ دینا چاہیے۔ جبکہ کچھ لوگوں نے لکھا تھا کہ دشمن ملک کا حال اس سے بھی بدتر ہونا چاہیے۔
سب سے پہلے تو میں یقین سے کہہ رہی ہوں کہ انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کی پاکستان سے کون سی دشمنی ہے لہذا انہوں نے صرف یہ سنا تھا کہ پاکستان ان کا دشمن ملک ہے جیسے ہمیں بچپن ہی سے یہی سکھایا اور کتابوں میں پڑھایا جاتا رہا ہے کہ بھارت ہمارا دشمن ملک ہے۔
مجھے اس چیز کی کبھی سمجھ نہیں آئی کہ میڈیا، سیاسی حکمران اور ہمارے نصاب لکھنے والے قوم کے دماغ میں دشمنی کا زہر کیوں گھول رہے ہیں، کیا قوم کے بچوں نے بڑے ہو کر جہاد پر جانا ہے؟
تم نے اپنے لیے اک علیحدہ وطن لینا تھا، لے لیا! تم نے مسلمانوں کے لیے الگ ریاست بنانا تھی، بنا لی، بنا لی تو اب قوم کے بچوں کے دل و دماغ میں اس وطن کو قائم و دائم رکھنے اور اس کی ترقی کے لیے کوشاں رہنے کا عزم ڈالو
لیکن وہ کیوں ایسا کریں گے، وہ تو بچپن میں ہی ان کے ذہنوں میں دشمن کی شناخت اور دشمنی نبھانے کے طریقے بٹھا رہے ہیں۔
مجھے ان کے بُرے کمنٹس دیکھ کر دکھ نہیں ہوا کہ پاکستان نے جتنی زیادتیاں ان کے ساتھ کی ہیں اس کے ساتھ اس سے بھی برا ہونا چاہیے کیونکہ انھیں بس وہی سکھایا گیا ہے جو ہمیں ہمیشہ سے ہی سکھایا گیا ہے۔
جتنا ہے وہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ سب کب تک چلے گا؟ کب تک دونوں قوم ایک دوسرے کے پرچم پر پاؤں رکھیں گی، کب تک ایک دوسرے کو مصیبت میں دیکھ کر بددعائیں دی جائیں گی، کب تک ایک دوسرے کا مذاق اڑایا جائے گا؟
میرے خیال میں یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک آزادی کے سالوں بعد بھی وہیں کے وہیں ہیں، ذہنی غلام، ایک دوسرے کو پتھر مارنے والے فارغ ترین لوگ!
اک جرنلسٹ ہونے کے ناطے میں سمجھتی ہوں کہ سوشل میڈیا پر جتنے بھی چینلز ہیں ان کا سختی سے جائزہ لیا جائے اور نفرت آمیز مواد بنانے اور پھیلانے والے چینلز بند کر دیئے جائیں، کیوں کہ ایک وڈیو پر ہزاروں لوگ لڑتے ہیں اور کچھ لوگ بہت ہی حساس ہوتے ہیں جو یہ چیزیں دل پر لیتے ہیں اور ذہنی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اور میرے خیال میں ہر انسان میں خود ہی اس بات کا شعور ہونا چاہیے کہ جو مواد وہ پھیلا رہے ہیں اس سے دیکھنے والوں پر کیا اثر ہو رہا اور کس حد تک انسانیت کا قتل ہو رہا ہے۔