سیلاب: ”ایک جھوٹی خبر نے ہمارے خاندان کو مشکل میں ڈال دیا”
بشریٰ محسود
ایک طرف سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں جس کی وجہ سے شدید پریشانی کا عالم ہے تو دوسری طرف پریشانی کی اس حالت میں بھی کچھ شیطان صفت انسان صرف اپنے فالوورز اور لائک کے چکر میں غلط افواہیں پھیلا رہے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ ان کے کتنے نقصانات ہو سکتے ہیں۔
ایسی ہی ایک فیک نیوز کا شکار ہوئیں آمنہ جن کا کہنا ہے کہ ”میں فیس بک پر حالات حاضرہ کا جائزہ لے رہی تھی کیونکہ ہمارے شہر ڈیرہ کے کافی علاقے تباہی کا شکار ہوئے ایسے میں میری نظر سے ایک ایسی پوسٹ گزری جس میں لکھا تھا کہ سبز نہر میں پانی کا لیول بہت بڑھ گیا ہے اور قریبی علاقے میں پانی مجبوراً چھوڑا جا رہا ہے، جب میں نے امی کو بتایا، ایک تو وہ بہت پریشان تھیں پہلے سے ہی کیوں کہ ٹانگ سے پہلے پتھر کے علاقے میں سیلاب کی وجہ سے ان کے بھائی کا گھر پانی کی نذر ہو چکا تھا اور اس سے اب تک رابطہ بھی نہیں ہو پا رہا تھا، تو یہ خبر سنتے ہی امی نے فوراً ضروری سامان باندھنے کا کہا اور بھابھی بچوں کو روانہ کیا، میرے چھوٹے بھائی کے ساتھ رنگ پور کی طرف میرے خالہ کے گھر اور وہ رات کو ہی رکشے میں نکلے، میں نے کہا بھی کہ ابو کے انے کا انتظار کرتے ہیں پھر چلے جائیں گے مگر امی بہت ڈری ہوئی تھیں، بچےبہت رو رہے تھے اور بہت افراتفری عالم تھا، جب تک ابو آئے امی رو رہی تھی، ابو نے بتایا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے، لوگ بلاوجہ جھوٹی خبریں پھیلا رہے ہیں، ابو نے کال کی کہ ان کو کل واپس بھیج دینا مگر کل معلوم ہوا کہ رنگ پور سے ڈیرہ تک آنے والے راستے بند ہیں کیونکہ ہمت کے مقام پر سڑک دو جگہ ٹوٹ چکی ہے اب وہ واپس نہیں آ سکتے، ایک جھوٹی خبر نے ہمارے خاندان کو بہت مشکل میں ڈال دیا کیونکہ جب تک راستے کھل نہیں جاتے وہ لوگ وہیں رہیں گے اور امی کی پریشانیاں مزید بڑھ گئی ہیں۔”
ایسی ہی فیک نیوز کا شبنم بھی شکار ہوئیں جن کا کہنا ہے ”ہمارے علاقے میں ایک دو بار غلط افواہ پھیلی کہ سیلاب آ رہا ہے، گھروں سے نکل جائیں لیکن سیلاب نہیں آیا جس کی وجہ سے میرے سسر نے جب مسجد میں اعلانات بھی ہو رہے تھے تب بھی انہوں نے ہم سب کو منع کیا کہ کوئی قدم بھی نہیں نکالے گا یہ سب جھوٹ ہے، جب شام کو سیلاب کا پانی ہمارے گھروں میں داخل ہوا تو ہی انہیں یقین آیا لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی، آسمان سے بارش برس رہی تھی اور ہر طرف پانی ہی پانی تھا، پورا بند کورائی شہر پانی میں ڈوب چکا تھا، رات کے اندھیرے میں ایک گھنٹے کا سفر ہم کو تین گھنٹوں میں طے کرنا پڑا، کوری کے مقام پر بھی جھوٹی خبروں کی وجہ سے سڑک کے دونوں اطراف لوگوں میں بات ہاتھا پائی تک پہنچ گئی تھی لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ سب جھوٹی افواہیں اور پانی کسی بھی سائٹ پر نہیں چھوڑا جا رہا ہے، ایسے مشکل وقت میں ہمیں ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھانا چاہیے اور خدارا جھوٹی خبروں/افواہوں سے پرہیز کرنا چاہیے، مستند اطلاعات کا انتظار کریں، صبر سے کام لیں اور لوگوں کی بھی ہمت بڑھائیں۔”
دوسری جانب عبدالرحمان سدوزئی اسپیکٹر ٹی ایم اے کی طرف سے ایک آڈیو پیغام جاری ہوا جس میں بتایا گیا کہ علاقہ کچا جو دریا کے اس پار ہے وہاں کے علاقے تھویا، جھوک بشارت، جھوک کچی پائند خان کے جو نشیبی علاقے دریا کے اندر آتے ہیں وہاں کے لوگ بروقت محفوظ مقامات پر منتقل ہو جائیں لیکن کچھ شرپسند یا کم علم انسانوں نے اس کو ڈیرہ اسماعیل خان شہر میں موجود کچی پائند خان تھویا فاضل کا کہہ کر وہاں کے لوگوں میں شدید خوف و ہراس پھیلایا، اس پریشانی کی خبر سنتے ہی کچھ خواتین کی حالت غیر ہو گئی اور ان کا بلڈ پریشر لو ہوا، لوگوں نے سامان باندھنا شروع کیا کہ جیسے ہی اعلانات ہوں گے تو وہ فوراً نکلیں گے۔
علاقے میں کافی پریشانی پھیل گئی تھی۔ جب اس بات کی خبر عبدالرحمن کو پہنچی تو انہوں نے دوسرا آڈیو کلپ جاری کیا جو سرائیکی اور اردو زبان میں تھا اور تفصیل سے بتایا کہ شہر کے اندرونی علاقے کچی پائند خان اور تھویا فاضل محفوظ ہیں اور ایسی کوئی خطرے والی بات نہیں ہے اور تمام دوستوں سے ایک بار پھر اپیل کی کہ بغیر تصدیق کے خبر نہ پھیلائیں۔
کوئی بھی معلومات یا خبر پھیلانے سے پہلے سوچنا چاہیے کہ یہ کسی کے لئے جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے لہذا ہر خبر بغیر تصدیق کے نہیں پھیلانی چاہیے۔
سوشل میڈیا نے جہاں پر لوگوں کے لئے آسانی پیدا کر دی ہے اور مشکل وقت میں آسانی سے اپنی آواز ملک کے اداروں یا علاقوں تک پہنچا سکتے ہیں وہاں سب سے بڑا نقصان فیک نیوز کا ہے، اس کی وجہ سے لوگوں کو کافی مشکلات کا سامنا ہے، اکثر لوگ دوسروں کی مدد کی غرض سے بات کو بغیر تصدیق کے آگے پھیلاتے ہیں تاکہ جلد سے جلد بات دوسروں تک پہنچے اور نقصان نہ ہو لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ اس بات میں سچائی کتنی ہے اور یہ فائدے کے بجائے کتنے نقصان کا باعث ہو سکتی ہے۔
مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم ہر بات کی تصدیق کریں اور پھر اس کو آگے پھیلائیں کیونکہ یہ ہمارا دینی اور قومی فریضہ ہے۔ اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کرنے کے بجائے ان کو تکلیف میں مبتلا نہ کریں، ایسی افواہوں سے لوگ ڈپریشن کا شکار ہو سکتے ہیں، اس کی زندہ مثالیں کرونا کی وباء میں ہمارے سامنے آ چکی ہیں۔