بلاگزتعلیم

پروفیسر پارتھیبان نے 36 سال میں 145 ڈگریاں کیسے حاصل کیں؟

حمیرا علیم

انسانی دماغ اللہ تعالٰی کا ایک تحفہ ہے۔ اگر کوئی انسان اس کا بھرپور استعمال کرے تو وہ معجزے کر سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کوئی بھی عام انسان پوری زندگی میں اپنے دماغ کا صرف دس فیصد ہی استعمال کرتا ہے جبکہ سائنسدان اس کا پچاس فیصد استعمال کرتے ہیں۔ ذرہ تصور کیجئے اگر ایک سائنسدان صرف پچاس فیصد دماغ سے دنیا کی صورت تبدیل کر سکتا ہے تو اگر کوئی اسے سارے کا سارا استعمال کرے گا تو کیا انقلاب لا سکتا ہے؟

انسانی ذہانت ماپنے کے لیے آئی کیو یعنی انٹیلیجنس کوٹئنٹ کا پیمانہ ہے۔ آج بھی ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جن کا آئی کیو آئن اسٹائن سے بھی زیادہ ہے اور وہ عظیم کارنامے انجام دے رہے ہیں جن میں زیدان حامد، اسٹیفن ہاکنگ، شو یانو، اینن کائلے، کرسٹوفر لینگن شامل ہیں۔

ولیم جیمز سیڈس 1898 میں پیدا ہوا اور 1944 میں وفات ہوئی۔ ریاضی میں کمال مہارت رکھتا تھا اور صرف گیارہ سال کی عمر میں ہارورڈ میں داخلہ لیا۔ کہا جاتا ہے کہ اسے چالیس زبانوں پر مہارت حاصل تھی اور اس نے کائنات کے قوانین کے حوالے سے بہترین کام بھی کیا۔ اس کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس کا آئی کیو ٹیسٹ میں سکور 250 سے اوپر تھا جو انسان کا سب سے بڑا سکور تھا۔

ایسے ہی ایک شخص ہیں بھارتی شہر چنائے سے تعلق رکھنے والے وی این پرتھیبان نامی پروفیسر! جب کوئی پہلی بار ان سے ملتا ہے تو سوچ بھی نہیں سکتا کہ اس غیرمعمولی چہرے کے پیچھے ایک انمول عالم چھپا ہے۔ پروفیسر وی این پرتھیبان کے پاس 145 ڈگریاں ہیں۔ ان کا وزیٹنگ کارڈ کسی کتاب کی مانند ہے جس پہ ان کی سینکڑوں ڈگریاں درج ہیں۔

کوئی بھی شخص نوکری شروع کرنے سے پہلے تعلیم مکمل کرتا ہے تو ایک یا زیادہ سے زیادہ تین چار ڈگریز حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن جب مطالعہ کسی کا جنون ہو اور علم میں اضافہ شوق بن جائے تو اپنے مقصد کے حصول میں کوئی مشکل رکاوٹ نہیں بن سکتی۔

بھارتی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق وی این پرتھیبان نے یہ تعلیمی اسناد 36 سال کی سخت محنت اور لگاؤ کی وجہ سےحاصل کی ہیں۔ کئی مضامین میں اسناد حاصل کرنے والے پروفیسر کے پاس ریاضی کے مضمون میں کوئی ڈگری نہیں جس کی وجہ ان کی اس شعبے میں عدم دلچسپی ہے۔ 55 سالہ پروفیسر کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی مزید ڈگریاں حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور نئے تعلیمی کورسز کیلئے درخواست دیتے رہتے ہیں، "مجھے مطالعہ پسند ہے۔ میرے لیے یہ بہت آسان اور دلچسپ ہے۔ میں مستقل امتحانات کی تیاری اور پیپرز میں مصروف رہتا ہوں۔”

عموماً لوگ اتورا کو چھٹی مناتے ہیں اور آرام کرتے ہیں جبکہ پروفیسر پرتھیبان پچھلے 36 سال سے ہر اتوار کو امتحان دے رہے ہیں۔ اب تو بہت سے نگران انہیں پہچاننے لگے ہیں۔

ان کی ڈگریوں میں سے 13 آرٹس، 8 کامرس، 4 سائنس، 10 لاء، 12 فلاسفی، 14 بزنس ایڈمنسٹریشن، 20 پروفیشنل کورسز، 11 سرٹیفیکیٹس کورسز، 9 پی جی ڈی کورسز، 8 منیجمینٹ، بہت سے دوسرے کورسز، پی ایچ ڈی منیجمنٹ، انشورنس کورسز، کارپوریٹ لاء، سوشل ڈیویلپمنٹ کے ماسٹرز شامل ہیں۔ وہ چنائے کے کئی کالجز میں سو سے زائد مضامین پڑھاتے ہیں۔

پروفیسر پرتھیبان ایک سفیدپوش گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کیلئے تعلیم کا حصول کچھ آسان نہ تھا ۔ان کا کہنا ہے:
"میں نے اپنی پہلی ڈگری کے حصول کے لیے جدوجہد کی اور عدالت میں نوکری حاصل کی۔”

انہوں نے 1981 میں بی کام کیا۔ وہ اپنے خاندان کے پہلے گریجویٹ تھے جنہوں نے 59 فیصد نمبر کے ساتھ پہلی ڈگری حاصل کی اور اول آتے آتے رہ گئے، ” میری والدہ نے بہت مشکل حالات میں مجھے پروان چڑھایا اور تعلیم دلوائی۔ جب میں اول نہیں آیا تو وہ بہت مایوس ہوئیں لہذا میں نے قسم کھائی کہ میں ان کے لیے قابل فخر بن جاؤں گا۔”

اور اب وہ ان پہ فخر کرتی ہیں کیونکہ پرتھیبان نے نہ صرف لاء کی دو ڈگریز بلکہ پراپرٹی لاء، ہیومن رائٹس، اینوائرنمینٹل لاء اور ایم بی اے میں بھی اول پوزیشن لی، "جب میں نے ایم بی اے میں اول پوزیشن کے لیے گولڈ میڈل لیا تو میری والدہ پہلی قطار میں بیٹھی رو رہی تھیں۔” وہ مسکراتے ہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے 36 سالوں میں 140 ڈگریز کیسے لیں تو ان کا جواب تھا: "بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ اکثر کورسز ایسے ہوتے ہیں جن کے لیے ٹرانسفر سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ میں پچھلے 36 سال سے فارمل پروفیشنل ڈگری کورسز کے لیے اپنا ٹی سی گھما رہا ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ کورسز بھی کر رہا ہوں جن کے لیے ٹی سی کی ضرورت نہیں ہوتی۔”

وہ کچھ ایسے اداروں کے بارے میں بھی بتاتے ہیں جہاں ٹی سی کی ضرورت نہیں، "یہ آسان کام نہیں تھا۔ میں صبح 5 بجے اٹھتا تھا اور رات ساڑھے 11 بجے تک مطالعہ اور کام کرتا تھا۔ پڑھنا اور پڑھانا ہی میرے مشاغل ہیں یا میں اتوار کو 6 بجے سے 7 بجے تک کناداسن گانے سنتا ہوں۔”

قابل ذکر بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنی تمام ڈگریز کے اخراجات خود برداشت کیے، "میں 1982 سے نوکری کر رہا ہوں اور میری تنخواہ کتب کی خریداری اور امتحانات کی فیس میں خرچ ہو جاتی ہے لیکن میں خوش ہوں۔” وہ اپنی کامیابی کے لیے اپنی والدہ، اپنی بیگم ایم سلواکماری، سوامی جی شوکادیوآنندہ، سیکرٹری مہاراجہ آف راماکرشنا مشن ویویکا آنندہ کالج کے شکرگزار ہیں۔

انہوں نے بیک وقت بہت سے کورسز میں داخلہ لے لیا نتیجتاً وہ ایک کورس کے لیے غلط کتب پڑھ کے تیاری کرتے رہے اور فیل ہونے لگے۔ انہیں اس بات کا بھی اعتراف ہے کہ انہیں میتھمیٹکس فوبیا ہے، "میں نے ایکٹوریل سائنسز میں داخلہ لیا لیکن اس ڈگری کو صرف اس وجہ سے مکمل نہ کر سکا کیونکہ اس میں حساب شامل تھا جسے سمجھنے کے لیے کوشش کرنی پڑتی تھی۔”

145 ڈگریز نے ان کی یاداشت کو متاثر کیا ہے۔ انہیں لوگوں کے چہرے، سمتیں حتی کے وہ راستے بھی بھول جاتے ہیں جن کو وہ روزانہ استعمال کرتے ہیں۔ تاہم ان کی خواہش ہے کہ وہ علم کا یہ سفر جاری رکھ سکیں اور زیادہ سے زیادہ ڈگریز حاصل کر سکیں۔ ان کا ماننا ہے کہ انسان کو اپنی معلومات میں اضافہ کرتے رہنا چاہیے کیونکہ علم حاصل کرنا ایک ایسا عمل ہے جو موت تک جاری رہتا ہے۔

پروفیسر پرتھیبان ہم سب کے لیے خصوصاً ان طلباء کے لیے ایک مثال ہیں جو تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے ہیں۔ وہ کسی کے بھی آئیڈیل ہو سکتے ہیں۔

وہ سات سے زائد کتب کے مصنف ہیں۔ بہت سے اداروں نے انہیں ایوارڈز سے نوازا ہے مگر ان کی خواہش الگ ہے: "میں چاہتا ہوں کہ مجھے سرکاری طور پر کوئی ایوارڈ ملے تاکہ اور لوگ بھی مطالعہ کی طرف راغب ہوں۔”

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کے ذہن میں ڈگریز کی کوئی خاص تعداد ہے جو وہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہوں نے قہقہہ لگاتے ہوئے جواب دیا: "میں رئٹائرمنٹ کے بعد اپنی موت تک پڑھنا پسند کروں گا۔”

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button