بلاگزلائف سٹائل

پاکستان گھورنے والے مردوں کا ملک ہے؟

سندس بہروز                        

میں کچھ دن پہلے آٹو رکشہ میں کہیں جا رہی تھی۔ سگنل پر رکی تو یوں ہی اچٹتی نگاہ برابر میں رکے دوسرے آٹو رکشہ پر پڑ گئی۔ اس کا ڈرائیور ایک بڑی عمر کا آدمی تھا مگر ٹکٹکی باندھے عجیب نگاہوں سے گھور رہا تھا گویا عورت ذات پہلی بار دیکھی ہو۔ یہی نہیں بلکہ سگنل پر جس گاڑی یا موٹر بائیک پر مرد یا لڑکا سوار تھا وہ سب ہی اس کام میں مصروف تھے گویا خاتون کو نظروں سے ہراساں کرنا کوئی کارخیر تھا جس میں سب ہی مرد اپنا اپنا حصہ حسب توفیق ڈال رہے تھے۔ ایک نے تو گھورنے کے ساتھ کچھ فحش فقرے بھی اچھالے۔ بہت بے چینی اور کراہت محسوس ہوئی۔

پاکستانی مردوں کے خیالات چاہے سیاسی، سماجی، معاشرتی و روایتی طور پر مختلف ہوں مگر ان میں قدر مشترک ان کا خواتین کو گھورنا ہے۔

کیوں گھور رہے ہو؟

یہ صرف میری یا پھر صرف ایک دن کی کہانی نہیں ہے۔ اگر بلاگ میں ورڈ کاؤںٹ کی بندش نہ ہو تو ایسی کہانیوں پر مبنی باقاعدہ ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے جس کہ کئی ایڈیشن سالہا سال چھپ سکتے ہیں۔

ہراسانی کی یہ داستاں تو روز کی ہے۔ خاتون چاہے چھوٹی عمر کی ہو یا بڑی عمر کی، مردوں کی گھورتی نگاہیں سب کا ہی بھوکے بھیڑیے کی طرح تعاقب کرتی رہتی ہیں۔ ان کی نظروں سے کوئی بھی محفوظ نہیں۔

روزانہ گھر سے نکلتے ہی ان گنت مردانہ نگاہیں قابل اعتراض انداز میں تعا قب کرنا شروع کر دیتی ہیں جیسے برچھیاں ہوں جو اپنے شکار کے تعاقب میں ہوں۔ گھر سے نکلنے پر پچھتاتی ہوں۔ شدید عدم تحفظ کا شکار ہوتی ہوں۔ سوچتی ہوں کہ کیا دنیا صرف ان مردوں کی ہے۔

کیا ہمیں کوئی حق نہیں گھر سے نکلنے کا؟ پاکستان کی آدھی سے زیادہ آبادی خواتین پر مشتمل ہے، اگر وہ سب گھر بیٹھ جائیں تو ملک ترقی کرے گا؟ کیا عوامی مقامات پر صرف مردوں کا حق ہے، خواتین کا نہیں؟

مردوں کا دماغ

مگر یہ تو میری سوچ ہے کیونکہ عام طور پر تو میں نے اس مسئلے کو سرے سے نظر انداز ہوتے ہی دیکھا ہے۔ اس مسئلے کو تو مرد کا عورت کو ہراساں کرنا بھی نہیں سمجھا جاتا۔ کیونکہ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں صرف جسمانی حملوں یا جسمانی اذیت دینے کو، جس کے نشان ثبوت کے طور پر عورت کے جسم پر جب تک نظر نہ آئیں، اسے ہراسانی نہیں سمجھا جائے گا۔

جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو کا ایک مضمون پڑھا جس کا عنوان ”مرد آخر عورتوں کو کیوں گھورتے ہیں؟” تھا۔ اس میں ایک تحقیق کا ذکر تھا جس کے مطابق کسی مرد کے دماغ کو جانچنے یا پڑھنے کے لیے اس کی نظروں کے زاویے کا مطالعہ کر کے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ وہ عورت کو کیوں گھور رہا ہے۔خواتین کو دیکھنے یا گھورنے کا یہ عمل اس سے قطعی مختلف ہوتا ہے جو  گاڑی، کمپیوٹر یا کسی اور دلچسپی کی چیز کو دیکھ کر ہوتا ہے۔

مرد کا دماغ کسی بھی عورت کے عکس کو مکمل صورت میں نہیں دیکھتا جبکہ اس کے برخلاف عورت کا دماغ کسی مرد کو مکمل طور پر جانچنے کی صلاحیت کا حامل ہے۔

اس حوالے سے مردوں اور خواتین کے گروپس پر تحقیق کی گئی جس میں انہیں مخالف صنف کی چند تصویریں دی گئیں۔ بعد میں دوسری تصوریں جو ان ہی تصاویر سے لی گئی تھیں مگر وہ مکمل نہیں تھیں بلکہ جسم کے کچھ اعضا یا حصے کی تھیں، ان سے دریافت کیا گیا کہ وہ ان کی شناحت کریں تو خواتین نے درست شناخت بتائی جبکہ مردوں کے گروپ نے تصویر کی جزئیات کی طرف توجہ نہیں دی اور صرف یہ بتایا کہ ایسی فوٹو پہلے بھی دیکھی ہے۔

کیا مردوں کو گھورنے پر جیل بھیج دینا چاہیے؟

اس موضوع پر تحقیق کے دوران کافی عرصہ پہلے ایک مرد کا دیا ہوا انتہائی انقلابی اور عورت دوست قسم کا حکم نظر سے گذرا۔ یہ حکم بھارتی ریاست کیرالا کے ایکسائز کمشنر رشی سنگھ راج نے دیا تھا جس کے مطابق کوئی بھی بھارتی مرد اگر خواتین کو گھورتا ہوا پایا گیا تو اسے جیل بھیج دیا جائے گا۔

بھارتی مرد بھی پاکستانی مردوں کی طرح خواتین کو گھورنے کے رسیا ہیں ( قدر مشترک جو ٹھہری!) لہذا اس حکم پر کیا اپنی برہمی کا اظہار۔ اخبارات نے اسے فضول قرار دے دیا جبکہ قانون دان تو قانونی تاویلیں پیش کرنے لگے کہ کس قانون کے تحت بھیاجی؟

مرد کیوں گھورتا ہے، کیوں ایسے گھور کر اسے ہراساں کرتا ہے؟ کیا اس کے اپنے گھروں میں خواتین نہیں ہیں؟ کیا ایک تہذیب یافتہ انسان ہونا جو خواتین کی عزت و تکریم کرے، اس کے لئے گھر میں بھی خواتین کا ہونا لازمی ہے؟ کیا اس کے بغیر مرد خواتین کی عزت نہیں کرے گا؟

یہی مسئلہ ایک دوست کو بتایا تو کہنے لگی کہ اب تک تمہیں اس کا عادی ہو جانا چاہیے کیونکہ گھر سے نکلنے والی عورت کو یہ مرد "موقع” تصور کرتے ہیں اور ایسے موقعے وہ کبھی جانے نہیں دیتے۔

مگر میں اپنی دوست کی اس بات سے متفق نہیں ہوں۔ کیوں ہم عورتوں کو گھروں سے نکلنے کی قیمت ان مردوں کے گھورنے کو برداشت کر کے ادا کرنی ہوتی ہے؟ ایک آزاد ملک کے شہری ہونے کے ناطے باہر آزادی سے گھومنا میرا اتنا ہی حق ہے جتنا کہ مردوں کا، کیوں ان کی غلط عادتوں کے عادی ہوں اور انہیں برداشت کریں؟ بالکل بھی نہیں۔

غالب اور مغلوب

پدر شاہی معاشروں میں مرد کا خاتون پر غلبہ اور قابو پانا اس کی فطرت کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ اس کے لئے باقاعدہ ذہن سازی کی جاتی ہے۔ اور گھورنا اسی فطرت کے زیر اثر ہوتا ہے جس کی مرد نے تمام زندگی تربیت حاصل کی ہوتی ہے۔

اسی حوالے سے ایک حیرت انگیز سائنسی تحقیق پڑھی کہ ایسا صرف انسانی مرد نہیں کرتے بلکہ حیوانات میں بھی نر مادہ پر اسی غلبے اور قابو کے حصول کے زیراثر ہوتے ہیں۔ یعنی دوسرے جانداروں میں بھی گھورنے والا غالب اور گھورے جانے والا مغلوب تصور ہو گا۔

مرد کی غیرت کو جھکی نظر اور حیا کے ساتھ کیوں نہ جوڑا گیا؟

ہمارے معاشرے کی یہ ایک فرسودہ سوچ ہے کہ ایک مرد کو ہر چیز کی اجازت ہے۔ مرد گھورتا ہے تو ہمیں کہا جاتا ہے کہ مرد تو ایسے ہی ہوتے ہیں، تم خود کو صحیح سے ڈھانپو۔ آخر کتنا صحیح ڈھانپیں؟ مرد جب عورت کو دیکھتا ہے تو پہلی نظر میں ہی اس کا ایسا جائزہ لے لیتا ہے جیسے اس کا پیدائشی حق ہو۔ ہمارے معاشرے میں جہاں غیرت کا اتنا بول بالا ہے وہاں مرد کی غیرت کو جھکی نظر اور حیا کے ساتھ کیوں نہ جوڑا گیا؟ کیا حیا صرف عورت کے لئے ہے؟ کیا مرد اس سے مبرا ہے؟ عورت چاہے چھوٹے سکرٹ پہنے یا عبایا کسی کو کوئی حق نہیں کہ اسے تاڑے۔ مسئلہ عورت کے لباس میں نہیں، مسئلہ مرد کی نظر اور سوچ میں ہے۔ ہمیں عورتوں کو ڈھانپنے کی بجائے مرد کی تربیت کرنے کی ضرورت ہے۔

میرے نزدیک اس معاملے میں قصور مرد کی پدرشاہی اطوار پر تربیت اور ذہن سازی کا ہے جس کے تحت وہ خواتین کو محض ایک شے سمجھتا ہے۔ آخر کب وہ اس بات کو سمجھے گا کہ ہم بھی اس معاشرے کا حصہ ہیں، جن کو اتنی ہی آزادی کا حق ہے جتنا خود اس کو۔ گھور گھور کر اگر مردوں  کو لگتا ہے کہ وہ ہمیں ہراساں کر کے گھر بٹھا دیں گے تو ایسا تو نہیں ہوا اور نہ ہونے والا ہے۔

پاکستان میں بھی اگر بھارتی رشی سنگھ راج جیسے خواتین کے تحفظ کے لئے کام کرنے والے قابل احترام مرد پالیسی سازی کا حصہ بنیں جو مردوں کے گھورنے کو قابل سزا عمل سمجھیں تو کتنا ہی اچھا ہو۔ ہیں نا؟

سندس بہروز ٹیچنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں، ریڈیو شوز کرتی ہیں اور صنفی موضوعات پر بلاگ اور شارٹ اسٹوریز بھی لکھتی ہیں۔

انسٹاگرام: @sundas_ behroz

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button