سوشل میڈیا: فاصلے مٹانے اور بڑھانے والی دو دھاری تلوار
سعدیہ بی بی
مجھے سوشل میڈیا کی دنیا یوں دکھتی ہے جیسے الف لیلہ کے طلسماتی گولے میں قید مختلف واقعات اور مناظر ہوں۔
اس طلسماتی گولے کے بارے میں تو میں نے کہانیوں کی کتاب میں پڑھا ہے، جس میں ایک ساحر یا ساحرہ اپنی پناہ گاہ میں بیٹھے بیٹھے ہی جہان بھر کو دیکھ اور پرکھ لیتی۔
سوشل میڈیا بھی تو مانو ایک جادوئی دنیا ہے جہاں زیادہ تر نوجوان متحرک ہیں۔
مگر یہ بھی ماننا غلط نہیں کہ سوشل میڈیا نے صرف نوجوانوں کو ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے مختلف طبقوں کے لوگوں کو ایک دوسرے سے ملے بغیر ہی جوڑے رکھا ہے، انہیں معاشی پلیٹ فارم فراہم کیا ہے، اظہار رائے کے لئے آزادی دی، معلومات تک رسائی صرف ایک کلک کے ذریعے ہو جاتی ہے،جبکہ فیس بک، انسٹا گرام، واٹس ایپ، ٹوئٹر نے انسانوں کے درمیان نزدیکیاں بڑھائیں اور فاصلے مٹا دیئے ہیں۔
سوشل میڈیا بیک وقت فاصلے مٹانے اور دوریاں بڑھانے کی طاقت رکھنے والی دو دھاری تلوار جیسا ہے۔ ماضی میں لوگوں کے پاس اظہار رائے کے لیے سوشل میڈیا نہیں تھا لیکن آج کی جدید دنیا میں اس کا استعمال وہ لوگ بھی شدت کے ساتھ کرتے ہیں جو خود کسی نہ کسی حوالے سے پرنٹ اور الیکڑانک میڈیا کا حصہ ہیں۔
سوشل میڈیا اور براہ راست رابطہ کاری
سوشل میڈیا سماجی رابطہ کاری کا بہترین زریعہ ہے۔ اس کے زریعے ایک دوسرے سے براہ راست مکالمے کا موقع ملتا ہے۔ ہم دوسروں کی رائے، سوچ اور نظریات جان پاتے ہیں۔ درحقیقت سماجی ویب ساٸٹس دوسروں کی بات سمجھنے اور اپنی بات سمجھانے کا نہایت موثر ذریعہ ہیں۔
یہ تعلق اتنا موثر ہے کہ اس سے باقاعدہ ذہن سازی کی تربیت بھی سمجھا جا سکتا ہے۔
کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ مین اسٹریم نیوز چینلز بھی وہ معلومات نہیں دکھاتے جو سوشل میڈیا کے ذریعے ہم تک پہنچ جاتی ہیں۔ یوں تصویر کا دوسرا رخ سامنے آتا ہے، مثلاً میانمار اور کشمیر کے حقیقی حالات و واقعات، حکومت کی زیرعتاب مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کی ریلیوں کی براہ راست کوریج، شہری صحافت کے جوہر، مون سون کی بارشوں میں شہروں کے وہ نشیبی اور پسماندہ علاقے جہاں نیوز چینل نہ پہنچ سکیں مگر ایک عام شہری وہاں سڑکوں اور گلیوں کی دگرگوں حالت کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا کے زریعے وائرل کر دیتا ہے۔
قرآن و حدیث کی شیٸرنگ کا کام بھی کیا جا سکتا ہے مگر درست تحقیق اور ذمہ داری کے ساتھ تاکہ کسی کے جذبات مجروح نہ ہوں۔
وہ خواتین جو گھر سے باہر کام نہیں کرتیں، وہ بھی گھر بیٹھے آن لاٸن کام کر سکتی ہیں، جیسے آن لائین بزنس، گھر بیٹھے کمانا اور کلائنٹ سے براہ راست آن لائن رابطہ پہلے کی نسبت سوشل میڈیا ہی نے آسان کیا ہے۔
کورونا کی وبا نے جہاں دنیا بھر میں انسانی صحت کی ایمرجنسی نافذ کی وہیں ریموٹ کام یعنی گھر بیٹھے دفتر کا کام کرنا بھی متعارف کروایا۔ ہائبرڈ ورکنگ نظام سے فائدہ اٹھانے کے لئے ریموٹ رابطہ کاری کے لئے نت نئی سافٹ وئیرز اور ویب سائٹ جیسے زوم، گوگل میٹ، فری کانفرنس ڈاٹ کام وغیرہ لوگ مفت میں استعمال کرنے لگے۔
یہ سب یقیناً ڈرامائی ترقی ہی ہے۔
سوشل میڈیا کی لت
کیا سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال غلط ہے؟
دیکھیں، کوئی بھی چیز ازخود بری یا اچھی نہیں ہوتی، یہ اس کے استعمال پر منحصر ہے۔ جو مثالیں پہلے دیں وہ تو ساری ہی مفید ہیں۔
یہ ہم انسان ہی ہیں جو کسی چیز کا اچھا یا برا استعمال کرتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر تفریحاً زیادہ وقت گزاری طالب علموں کے لئے خصوصی طور پر وقت کا/ ضیاع ہے۔ بڑھائی پر دھیان کم ہو جاتا ہے جس کے باعث عام طور پر نمبرز کم آتے ہیں اور امتحان میں بھی ناکام ہوتے ہیں۔
میں نے اپنی بلاگنگ کی استاد سے سوشل میڈیا اور مین اسٹریم نیوز چینل کی خبر میں فرق کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ نیوز چینل کا کام تحقیق کے بعد ذمہ داری سے خبر دینا ہے جبکہ سوشل میڈیا پر بغیر تحقیق کے غیرزمہ داری کے ساتھ معلومات ڈالی جاتی ہیں۔ کاپی پیسٹ کا کام کرنے والے یہ نہیں سوچتے کہ لوگ اس خبر پر بھروسہ کریں گے جس سے نقصان کا خدشہ بھی ہوتا ہے۔ جعلی اکاٶنٹس کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کیا جاتا ہے۔ فحش ویب سائٹس، بے حیاٸی کا کھلے عام اظہار اور غیرشائستہ زبان کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ نفرت سے بھری اشتعال انگیز پوسٹس، تحقیر اور تذلیل پر مبنی کمنٹس نفرتوں میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے شروع ہونے والی پب جی گیم کے چیلنج جیتنے کی لت نے کتنے نوجوانوں اور بچوں کی جان لی۔
سوشل میڈیا کا بے جا اور ہر وقت استعمال لوگوں کو جسمانی طور پر غیرمتحرک کرتا ہے۔ یہ خراب جسمانی صحت کو فروغ دیتا ہے اور اس کے ذریعے سے لوگ اپنے والدین، بہن بھاٸیوں اور رشتہ داروں کو وقت نہیں دے پاتے۔
سوشل میڈیا کے ذریعے لوگ ایک دوسرے کے اکاٶنٹ بھی ہیک کرتے ہیں۔ لڑکیوں کو ہراساں کیا جاتا ہے، تصویروں کے بدلے پیسوں کی ڈیمانڈ کی جاتی ہے اور اگر وہ نہ مانیں تو تصویر یا ذاتی مواد ڈارک ویب سائٹس پر ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ کام جرائم پیشہ اور عام لوگ، دونوں ہی کر رہے ہوتے ہیں۔
ہمیں سوشل میڈیا کے فوائد کے ساتھ ساتھ نقصانات کا مشاہدہ کرتے رہنا چاہیے۔
آپ ایسے لوگوں سے خبردار رہیں جو سوشل میڈیا پر فساد، بدامنی، لڑاٸی جھگڑے، بے حیاٸی اور غلط خبریں پھیلاتے ہیں۔
تو آخر میں آپ سے اتنی گزارش ہے کہ سوشل میڈیا پر اپنی ذاتی معلومات نہ ڈالیں۔ پرائیوسی سیٹنگ طے کریں جس میں ٹو فیکٹر اتھینٹیفیکیشن استعمال کریں۔ غیرتحقیق شدہ مواد شیٸر نہ کریں۔ بچے اگر سوشل میڈیا استعمال کریں تو والدین کی نگرانی میں کریں۔
سوشل میڈیا پر تفریح کے لئے ایک وقت مقرر کر لیں اور طے کر لیں کہ سوشل میڈیا کے طلسماتی کرشموں کے مثبت پہلوؤں پر ہی توجہ دینی ہے۔
اب ذرا بتائیے کہ آپ سوشل میڈیا کیسے استعمال کرتے ہیں؟
سعدیہ بی بی طالب علم ہیں اور مخلتف سماجی موضوعات پر بلاگ لکھتی رہتی ہیں۔