آمینہ سلارزئی
ہم سب جانتے ہیں کہ کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے تعلیم بہت ضروری ہے۔ تعلیم کے بغیر کوئی بھی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ دنیا کی دیگر اقوام کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کا واحد راستہ تعلیم کے میدان میں ترقی حاصل کرنا ہے۔ ہم سب اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ضم اضلاع میں نظام تعلیم کا معیار تسلی بخش نہیں ہے۔ ضم شدہ اضلاع کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے لیکن بدقسمتی سے بنیادی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ان میں زیادہ تر تعلیم مکمل نہیں کر پاتے ان نوجوانوں کا بھی سب سے اولین مطالبہ حصول تعلیم ہے۔
ہمارے ملک کے ان علاقوں میں شرح خواندگی کی سطح بہت ہی کم ہے۔ ان علاقوں میں 57 فیصد سے زائد بچے سکول جانے سے محروم ہیں جن کی عمریں 5 اور سال 16 سال کے درمیان ہیں۔ میں سمجھتی ہوں اگر نوجوان طبقہ تعلیم یافتہ ہو تو ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے، لیکن اگر کسی علاقے کے نوجوانوں کو تعلیم سے محروم رکھا جائے تو ان میں تخلیقی سوچ ختم ہو جاتی ہے۔ ایک ریسرچ کے مطابق اس وقت قبائلی اضلاع میں 1443 اسکولوں میں تدریس کا عمل نہیں ہو رہا، سب سے زیادہ 371 اسکول جنوبی وزیرستان میں جبکہ 295 شمالی وزیرستان میں بند ہیں۔
ذہنی پسماندگی
میرے خیال میں قبایلی اضلاع میں اکثر لوگ ذہنی پسماندگی کی وجہ سے لڑکیوں کو تعلیم سے محروم رکھتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ لڑکیوں کی تعلیم کو اہمیت نہیں دیتے اور اسی وجِہ سے لڑکیاں تعلیم کے میدان میں پیچھے رہ جاتی ہیں۔ تعلیم حاصل کرنا ہر انسان کا بنیادی حق ہوتا ہے چاہے وہ مرد ہو یا عورت اور دونوں میں بہت سی صلاحیتیں ہوتی ہیں، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ان سے فائدہ اٹھا کر معاشرے کی بہتری کیلیئے کام کیا جائے۔
حکومتی عدم توجہی
جیسے کے ہم سب جانتے ہیں کہ ضم شدہ اضلاع میں گزشتہ دو دہائیوں سے جاری بدامنی کی لہر نے وہاں کے لوگوں کو بہت بری طرح متاثر کیا ہے، ایسے میں حکومتی عدم توجہی سے ذہین نوجوان بھی ناکامی سے دوچار ہیں۔ حکومتی وعدوں اور دعوؤں کے باوجود یہاں سکولولز، کالجوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ طلباء کے لئے سکالرشپس کی فراہمی نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے ان میں سے اکثر طلباء اعلیٰ تعلیم مکمل نہیں کر پاتے۔
انٹرنیٹ کی بحالی کا مسئلہ
وفاقی حکومت نے ضم شدہ اضلاع میں انٹرنیٹ کی بحالی کے احکامات جاری کيے ہیں مگر افسوس یہ اقدام اب تک تسلی بخش نہیں۔ ان اضلاع میں بیشتر علاقوں میں انٹرنیٹ کی بحالی پر ابھی تک کام بھی شروع نہیں ہوا جس کی وجہ سے طلباء انٹرنیٹ کی سہولت اور آن لائن کلاسز کے ليے دوردراز علاقوں کا رخ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اکثر انٹرنیٹ میسر نہ ہونے کی صورت میں طلبا کا قیمتی وقت ضائع ہوتا ہے۔
میرٹ کا فقدان
تعلیم کے حصول کیلئے میرٹ کی بنیاد پر اساتذہ کو بھرتی کرنا لازم ہے، لیکن اکثر ایسا نہیں ہو پاتا۔ سفارش کی بنیاد پر نالائق اساتذہ کی بھرتی کی وجہ سے طلبا میں قابلیت اور تخلیقی صلاحیتیں ختم ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سے ان کو اعلیٰ تعلیم کے حصول میں کافی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ اکثر اساتذہ ڈیوٹی کے بغیر اپنی تنخواہیں لیتے ہیں اور طلباء کو اس کی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے۔
میرے مطابق ہمارے ضم شدہ قبائلی اضلاع میں ایک طویل عرصے کے بعد امن اور ترقی کا سفر شروع ہونے کو ہے، اس لئے حکومت اور یہاں کے عوام کو تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے حصول تعلیم پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو دیگر شہروں میں مقیم یونیورسٹیوں میں مختص سیٹوں کی تعداد کو دگنا کرنا چاہیے تاکہ ان پسماندہ علاقوں کے طلباء تعلیم کے میدان میں آگے بڑھ سکیں۔
قبائلی اضلاع میں تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کیلئے مختلف اکیڈمیز کا قیام عمل میں لایا جائے، جو اس دور جدید کی اشد ضرورت ہے۔ یکساں اور معیاری نظام تعلیم ہی کی بنیاد پر ایک قوم ترقی کرتی ہے، اس لئے بہتر تعلیم اور خواندگی کی شرح میں اضافہ بہت ضروری ہے۔
آخر کب تک قبائلی اضلاع کے طلباء یکساں اور معیاری تعلیم سے محروم رہیں گے؟