حکمرانوں سے نالاں نہ ہوں، اپنے گریبان میں جھانکیے!
حمیرا علیم
ہم ہر وقت حکومت، حکمرانوں اور ارباب اختیار سے نالاں رہتے ہیں، ہر مصیبت کے لیے انہیں کوستے ہیں لیکن کبھی اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے۔ اگر اپنے کرتوتوں پہ اک نگاہ غلط ڈالیں تو ان کی تفصیل کچھ یوں ہو گی۔
ناپ تول میں کمی
سودی کاروبار منافع کے نام پہ سود
جائز کام کرنے کے لیے کمیشن کے نام پہ رشوت
زکوۃ ادا نہ کرنے کے حیلے بہانے اور اس کی ادائیگی سے اعراض
ملاوٹ
دﻭﺩﮪ ﻣﯿﮟ ﭘﺎنی
ﺷﮩﺪ ﻣﯿﮟ ﺷﯿﺮہ
ﮔﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﻤﯿﮑﻞ اور گندگی
ﺳﺮﺥ ﻣﺮﭺ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﻨﭩﻮﮞ ﮐﺎ ﺑُﻮﺭﺍ
پتی میں لکڑی کا بورا
ﺟﻮﺱ ﻣﯿﮟ ﺟﻌﻠﯽ ﺭﻧﮓ ﺍﻭﺭ ذائقہ
آٹے میں میدہ، گندم میں مٹی
پھلوں میں انجیکشن اور رنگ
پٹرول میں گندہ تیل
ﮔﻮﺷﺖ ﮐﻮ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﺍﻧﺠﮑﺸﻦ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﻭﺯﻥ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮐﺮﻧﺎ
بھینس کو دودھ بڑھانے کے ٹیکے
ہوٹل کے کھانے میں کتے اور گدھے
ﺷﺎﺩﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﻣﺮغی
ﻣﻨﺮﻝ ﻭﺍﭨﺮ کی بوتل میں نلکے کا ﭘﺎﻧﯽ
پیک موبائل کے ڈبے میں استعمال شدہ فون
دو نمبر کاسمیٹکس اصل کی مہر کے ساتھ
ﺩﻭ ﻧﻤﺒﺮ ﺍﺩﻭﯾﺎت
جعلی ڈگری ہولڈر ڈاکٹرز، پائلٹس، انجینئرز، سیاستدان اور اساتذہ
ﺍﻣﺘﺤﺎﻧﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﻧﻘﻞ
لڑکیوں اور لڑکوں کے غیرشرعی تعلقات، ناجائز اولادیں
رشتے کے نام پہ دھوکہ
لیں دین کاروبار میں بے ایمانی اور دھوکہ
ﺑﺠﻠﯽ گیس کی چوری اور بل نہ بھرنا
جھوٹ
بے نمازی و بے عمل لوگ
فیشن کے نام پہ برہنہ خواتین
ﺷﺎﺩﯼ ﺑﯿﺎﮦ ﭘﺮ ﺷﺮﺍﺏ ﻧﻮﺷﯽ، ﻣﺠﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﻓﺎﺋﺮﻧﮓ
مرد و عورت کا اختلاط
عمل قوم لوط
مردہ عورتوں کے ساتھ قبروں میں ریپ
غیراخلاقی مواد
ماں باپ کی نافرمانی
قطع رحمی
پڑوسیوں سے بدسلوکی
اساتذہ کی بےادبی
ویران مساجد آباد سینما اور کلبز
میاں بیوی میں نفرت
بچوں پر بے جا سختی اور بے جا لاڈ پیار
عدالتوں میں بے انصافی
حرام کو حلال اور حلال کو حرام قرار دینا
علماء کی دنیا میں دلچسپی اور اپنے اصل فرض یعنی علم پھیلانے سے پہلوتہی
حق دار کا حق ادا نہ کرنا
زمینوں جائیدادوں پہ ناجائز قبضہ اور ان کے لیے قتل و غارت
جادو ٹونے، سحر، مزاروں فقیروں، پامسٹری، آسٹرونومی سے رجوع اور دین کے علماء سے احتراز
علماء کا قتل
دین کا مذاق اور آباو اجداد کی پیروی
غرض ہم میں قرآن میں مذکور تباہ شدہ اقوام کی ہر برائی موجود ہے۔ مگر ہم بنی اسرائیل کی مانند خود کو اللہ کی پیاری قوم سمجھتے ہوئے ہر گناہ کو اپنے لیے حلال و جائز سمجھ کے کرتے ہیں اور پھر حیران ہوتے ہیں کہ ہم پہ قدرتی آفات کیوں آتی ہیں؟ ہم پہ ایسے حکمران کیوں مسلط کیے گئے ہیں؟
ایمانداری سے اپنا محاسبہ کیجئے اور ذرا سوچیے کبھی آپ نے اللہ تعالٰی سے یہ دعا کرنے کے ساتھ ساتھ کہ ہمیں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور صلاح الدین ایوبی جیسا حکمران عطا فرما یہ دعا بھی کی کہ ہمیں قرآن و حدیث پڑھنے ان پہ عمل کرنے اور ابراہیم علیہ السلام، نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور صحابہ کرام جیسا مسلمان بننے کی توفیق عطا فرما؟
کبھی اللہ تعالٰی سے دعا کی کہ ہمیں حلال حرام کی تمیز عطا فرما، حرام سے بچا اور حلال عطا فرما، اپنا فرمانبردار اور مطیع بنا، ہمیں دین کی سمجھ عطا فرما اور اپنے دین کے کام کے لیے چن لے۔ ہم سے اپنے دین کی بہترین خدمت لے لے (ہم سمجھتے ہیں یہ صرف مسجد میں بیٹھے مولوی کا فرض ہے جبکہ یہ ہر مسلمان کا کام ہے)۔
کبھی دنیا میں موجود ظلم کا شکار اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے دعا کی کہ اللہ تعالٰی انہیں دشمنوں کے شر سے بچائے اور جہاں جہاں مسلمان مغلوب ہیں انہیں غلبہ عطا فرمائے۔ ان کی مدد کرنے کی کوشش تو کجا ہم تو ان کے لیے دعا کرنے کے بھی روادار نہیں۔ ہاں دشمنوں کو کسی ان پڑھ جاہل خاتون کی طرح کوسنے دینے میں تیز ہیں۔
کبھی اللہ تعالٰی سے دنیا کی آسائش و آرام کے ساتھ ساتھ عذاب قبر اور عذاب جہنم سے نجات مانگی، خاتمہ بالایمان مانگا؟ کبھی یہ دعا کی کہ بے عمل حکمرانوں، سود، گیس، بجلی اور پانی کی لوڈشیڈنگ جیسے عذابوں سے ہمیں نجات عطا فرما اور ہمیں خودکفیل فرما، لوگوں کی محتاجی سے نجات عطا فرما؟
یہ تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعا ہے: یا اللہ! میری قوم کو پہلی اقوام کی طرح مکمل تباہ نہ کرنا۔
ورنہ یقین مانیے ہم اپنے اعمال کی بدولت صفحہ ہستی سے مٹا دیئے جانے کے قابل ہیں۔ یہ جو چھوٹے موٹے عذاب سیلاب، زلزلے، لینڈ سلائیڈنگ، آتش فشاں، سردی گرمی، وبائیں اور فرعون صفت حکمرانوں کی صورت میں آتے ہیں وہ ہمیں جھنجھوڑنے کے لیے آتے ہیں کہ ہم اپنے آپ کو سدھار کر رجوع الی اللہ کر لیں۔
اپنے آپ سے سوال کیجئے اور اگر جواب نفی میں ملے تو سمجھ جائیے کہ ہمیں ان تمام دعاؤں کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے اعمال کو بھی بدلنا ہو گا تبھی ہماری تقدیر اور حالات بدلیں گے۔