نظر کا ٹیکہ یا نفرت کا ٹیکہ؟
نوشین فاطمہ
میری خالہ پانچ پوتیوں کے بعد جب ایک عدد پوتے کی دادی بنی تو اس کی خوشی دیدنی تھی، اتنی کے عقیقیہ کر ڈالا جو پوتیوں کے وقت کرنا بھول گئی تھی، یعنی ایک نہ دو بلکہ پانچوں بار بھول گئی۔
اب ننھے منے نئے مہمان کا دیدار خاندان بھر کو کرانا بھی ضروری تھا۔
جب دیدار شیرخوار کے لئے پہنچی تو دیکھتی ہوں کہ اس کے ننھے منے اجلے ماتھے پر بڑا سا سیاہ دھبہ منہ چڑا رہا تھا۔ سخت کوفت ہوئی اور پوچھا خالہ سے کہ اچھے خاصے پیارے بچے کو کیوں داغ لگا دیا کہ پیار بھی نہ آئے۔ کہنے لگی کہیں نظر نہ لگ جائے۔ میں نے کہا میں اسے کیوں نظر لگاؤں گی جسے دنیا میں آئے ہی چند روز ہوئے ہیں، اور اگر نظر کا اتنا خوف ہے تو پھر بلایا ہی کیوں دیکھنے کے لئے؟ اب کے عجیب منظق دی کہ نظر اپنوں کی اور پیار کی بھی تو لگتی ہے۔
کیا پیار کرنا بدنظری ہے؟
ایک سوال نے ذہن میں تیز دستک دی کہ میری خالہ اپنے پوتے کو پیار سے کیوں بچا رہی ہے؟
چلیں ایسے ہی مان لیتے ہیں کہ نظر لگتی ہے مگر پیار سے کیسے نظر لگ سکتی ہے اور کالا ٹیکہ اس کا علاج کیسے ہے؟
خالہ سے پوچھا تو بس اتنا کہا کہ نظر کا ذکر تو مذہب میں بھی ہے۔ اس کے سوا ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔
توہم پرستی
میں سمجھتی ہوں کہ توہم پرستی کا انسانی زندگی پر بہت گہرا اثر ہے۔ اتنا گہرا کہ ہم پیدا ہوتے ہی اپنے خوف یا پھر نفرت کو اس بچے کے چہرے پر کسی تمغے کی طرح سجا دیتے ہیں۔ اور اس طرح سیاہ ٹیکہ نفرت کا ٹیکہ بن کر ساری عمر اس بچے کے ساتھ رہتا ہے۔
پھر وہ ہر محبت کی نظر کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ یہ سیاہ ٹیکہ مرتے دم تک ماں باپ کی محبت سے اجیرن تربیت کی صورت میں بڑا ہوتا ہے۔
سیاہ رنگ، انسانی اعمال اور حادثات
سچ کہوں تو مجھے سیاہ رنگ بہت بھاتا ہے۔ جانے اس نے ایسا کون سا گناہ کر لیا کہ برصغیر کے روایتی معاشروں میں اسے باقاعدہ نظر سے بچاؤ کی ڈھال قرار دے دیا گیا۔
کیونکہ اچھی اور محبت کی نظر بھی لگتی ہے تو پیدائش کے ساتھ سیاہ ٹیکے سے شروع ہو کر سیاہ کپڑے کا کسی نئے گھر یا نئی گاڑی پر باندھنا۔۔۔۔ اور تو اور دلہن کی گاڑی کے سامنے سیاہ ہنڈیا پھوڑنے تک، اپنے بچاؤ کی تمام تر ذمہ داری ہم انسانوں نے سیاہ رنگ پر ڈال دی ہے۔
بھئی آپ بھی اپنی ذمہ داری لو۔ بچہ بیمار زیادہ تر بڑوں کی لاپروائی سے بیمار ہوتا ہے یا نظر لگنے سے؟ اسی طرح بہت سے مسائل کا سامنا اکثر حادثاتی طور پر ہوتا ہے نہ کہ نظر لگنے سے؟
حادثات، غلطیوں اور کوتاہیوں کو تسلیم کر کے ان کو ختم کرنے کی کوشش کریں نہ کہ اپنے جیسے جیتے جاگتے انسان کو مشکوک اور نفرت کی نظر کریں کہ اس کی نظر لگ گئی۔
محبت سے الرجک معاشرہ
محبت اور انسیت سے الرجک معاشرے ایسے ہی نفرت کی امر بیل کے سائے تلے جنم لیتے اور پنپتے ہیں۔ عجیب ہے یہ ہمارا معاشرہ! محبت ہمیشہ مشکوک، اس سے منسلک ہر شے اور ہر جذبہ مشکوک و ناقابل قبول ہے اس کے لئے۔ بس کسی چیز پر اندھا یقین ہے تو وہ ہے نفرت!
پیدائش کے ساتھ ہی جو نفرت کا سیاہ ٹیکہ ماتھوں پر سجا دیا جاتا ہے، ہم پوری زندگی اس نفرت پر یقین اور اس کا دفاع کرتے رہتے ہیں۔
کبھی مذہب کا نام لے کر تو کبھی بڑے بوڑھوں کی حکمت سے نتھی کر کے۔ اب بندہ پوچھے کہ ان گھروں میں بند، فرسودہ روایات کی غلامی کرتے بڑے بوڑھوں نے بھلا ایسی کون سی ایجادات کی ہیں جو ان کی حکمت کی گواہ ہوں۔ بس لے دے کے یہ سیاہ ٹیکہ بلکہ نفرت کا ٹیکہ ہی ایجاد کیا ہے۔
ان سے کوئی پوچھے کہ مغرب کے ترقی یافتہ ممالک کے سرخ و سفید بچوں کو کبھی سیاہ ٹیکہ لگا دیکھا ہے؟ میں سمجھتی ہوں وہاں بہت محبت اور انسانیت ہمارے معاشروں سے زیادہ پائی جاتی ہے کیونکہ وہان نفرت کا یہ سیاہ ٹیکہ جو نہیں ہوتا۔
کیا آپ بھی سیاہ ٹیکہ لگانے کے رواج سے اتفاق کرتے ہیں؟
نوشین فاطمہ سماجی کارکن ہیں اور مختلف موضوعات پر بلاگز لکھتی ہیں۔