حمیرا علیم
دنیا بھر میں الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواران اپنا اپنا منشور بیان کرتے ہیں اور عوام کو یہ وضاحت دیتے ہیں کہ نامزدگی کی صورت میں وہ ان کے لیے اور ملک کے لیے کیا اقدامات کریں گے جو انہیں فائدہ پہنچا سکیں گے۔ حتی کہ امریکہ میں صدارتی امیدوار عوام کے سامنے ایک پنڈال میں اپنے ایجنڈے کو ڈسکس کرتے ہیں، ایک دوسرے کی پالیسیز پہ تنقید کرتے ہیں اور عوام جس کو مناسب سمجھتی ہے اسے منتخب کر لیتی ہے۔ اور دوسرا کھلے دل سے اپنی ہار اور حریف کی جیت کو نا صرف قبول کرتا ہے بلکہ اسے گلے لگا کر مبارکباد بھی دیتا ہے۔ اور اس کے دور حکومت میں اس کے ساتھ مل کر ملک کی ترقی کے لیے کام بھی کرتا ہے۔ اپنی ہار کو انا کا مسئلہ بنا کر ذاتی دشمنی پہ نہیں اتر آتا۔
لیکن پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں خواہ برسراقتدار پارٹی ہو یا اپوزیشن، الیکشن ہوں یا کوئی فنڈ لینا ہو یا بل پاس کروانا ہو بجائے ان پہ بات کرنے کے ایک دوسرے کی ذاتیات پہ حملے کیے جاتے ہیں۔ ان کے ڈارک سیکرٹس کو سرعام اچھالنے کی دھمکیاں دے کر اپنا الو سیدھا کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات تو محسوس ہوتا ہے کہ سب سیاستدان اخلاقی طور پر دیوالیہ کچھ چوروں ڈاکوؤں کا ٹولہ ہے یا شاید یہ کہنا چوروں ڈاکوؤں کی توہین ہو گی۔ کیونکہ ان کے بھی کچھ اصول و ضوابط ہوتے ہیں جن کی وہ پاسداری کرتے ہیں اور ان کی مخالفت نہیں کرتے۔
جبکہ ہمارے سیاستدان تو اپنے مقصد کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک گر سکتے ہیں۔ دوسروں کی ویڈیوز آڈیوز ریکارڈ کروانا پھر انہیں بلیک میل کرنا اور اپنی بات منوانا تو پاکستانی سیاست کا وتیرہ ہی بنتا جا رہا ہے۔ کبھی نواز شریف صاحب بی بی کی غیراخلاقی تصاویر ہیلی کاپٹر سے گراتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ان کو دیکھ کر بی بی کے خلاف ہو سکیں۔ تو کبھی چیئرمین نیب، سابق خاتون اول کی آڈیوز تو کبھی ججز، سیاستدانوں کی ڈیل کرنے، پیسے لینے اور دوسروں کے خلاف سازشوں، اور بیڈرومز کی نہایت ہی ذاتی قسم کی ویڈیوز کو وائرل کر دیا جاتا ہے۔ کبھی اپنے خلاف اور مخالف کے حق میں بولنے والے صحافیوں پہ جھوٹے مقدمات بنوا کر انہیں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔
جونہی کوئی برسراقتدار آتا ہے تو بجائے ملک و عوام کے لیے کوئی مفید سرگرمی سر انجام دینے کے اپنے مخالفین پہ سچے جھوٹے الزامات لگا کر انہیں جیل بھیجنے کا کام کرتا ہے۔
اور جن سیاستدانوں کی ایسی آڈیوز ویڈیوز وائرل ہوتی ہیں ان کے کان پہ جوں تک نہیں رینگتی۔ وہ ان کی تردید یا تائید کرنے کی زحمت بھی نہیں فرماتے۔ اور اگر کوئی ان کے بارے میں سوال کرنے کی جسارت کر ہی لے تو زیر عتاب ٹھہرتا ہے۔ اس سب گندی سیاست میں مزے کی بات یہ ہے کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے اور جو بوو گے وہ کاٹو گے کے مصداق جو جو لوگ دوسروں کی عزتوں کو اچھالتے ہیں ان کی اپنی عزت بھی محفوظ نہیں رہتی اور وہ ایسی جگہ سے ذلیل و خوار ہوتے ہیں جہاں سے انہوں نے تصور بھی نہیں کیا ہوتا۔
شاید وہ صرف نام کے مسلمان ہیں ورنہ وہ اس حدیث قدسی سے ضرور واقف ہوتے کہ جب کوئی کسی کا مذاق اڑاتا ہے یا اس کی تذلیل کرتا ہے تو اللہ تعالٰی اپنی بڑائی کی قسم کھا لیتا ہے کہ اسے تب تک موت نہیں آئے گی جب تک کہ وہ بھی اسی صورتحال کا سامنا نہیں کر لیتا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فرماتے تھے کہ اس حدیث کو سننے کے بعد ہم کسی کتے کو بھی کتا نہیں کہتے تھے کہ کہیں ہمیں بھی کتا نہ بنا دیا جائے۔ اور ہم بنا کسی تحقیق کے دوسروں پہ کیچڑ اچھالتے ہیں ان کے اسکینڈلز گھڑتے ہیں اور جب خود مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں تو معصومیت سے سوال کرتے ہیں: "ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ ہم نے کیا کیا تھا جو یہ سب ہو رہا ہے؟”
دنیا بھر میں سیاستدان اپنے فرائض کی انجام دہی اور اپنے زیر نگرانی محکمہ جات کی بہتری کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔مگر ہمارے سیاستدان اسی کھوج میں رہتے ہیں کہ کیسے، کب اور کہاں سے مخالفین کے خلاف کچھ ایسا مواد ملے کہ ان کی ٹانگ کھینچی جا سکے اور اپنی پاکیزگی و اخلاص کو ظاہر کیا جا سکے۔
دوسرے ممالک کے سیاستدان کسی جگہ پہ جلسہ کرتے ہیں یا کسی منصوبے کا افتتاح کرتے ہیں تو اس جگہ کے مسائل اور ان کے حل کے بارے میں اور اس منصوبہ سے متعلقہ معلومات کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ جبکہ پاکستانی وزراء مخالفین کی برائیوں ان کی غلط پالیسیز پہ بات کر کے اپنی نااہلی اور خامیوں پہ پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔
رہ گئی عوام تو وہ بیوقوفی کی حد تک سادہ لوح واقع ہوئی ہے۔ اسے اس چیز سے کوئی غرض نہیں کہ کوئی منتخب قومی نمائندہ اس کے حلقے میں کتنا کام کر رہا ہے۔ بلکہ وہ شخصیت پرستی اور پسند و ناپسند کی بناء پہ لڑنے مرنے کو تیار رہتی ہے۔ پیر صاحب تیس سال تک وزیر رہے، کچھ عرصہ وزیراعظم بھی بنے رہے مگر جس علاقے سے تعلق رکھتے ہیں وہاں نہ تو سڑکیں بنوا سکے، نہ اسکول کالجز یا کوئی اور ترقیاتی کام کروا سکے۔ مگر عوام اگلے الیکشن میں بھی ووٹ انہی کو دیں گے کیونکہ وہ ان کے ان داتا اور مولا پیر صاحب ہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ پاکستانی سیاست گند کا وہ ڈھیر ہے جس سے شرفاء اپنا دامن بچا کر گزرتے ہیں اور رذیل اس میں غوطے لگا لگا کر اپنی پسند کی اشیاء نکال نکال کر خوش ہوتے ہیں۔ پاکستانی سیاست دان انسان کم اور فرعون زیادہ ہیں۔ مگر شاید ہم بھی انہی فرعونوں کے لائق ہیں کیونکہ ہم میں بھی بنی اسرائیل جیسی کاہلی، کام چوری، بدکرداری، کرپشن اور اللہ کی نافرمانی بدرجہ اتم موجود ہے۔
جیسی روح ویسے فرشتے کے مقولے کے مطابق ہم پہ ہم جیسے ہی حکمران مسلط کر کے عذاب نازل کیا گیا ہے۔ پانچ ہزار یا ایک آئل کے ٹن اور آٹے کی بوری کے عوض اپنا اور پورے خاندان کا ووٹ بیچنے والے اگر صلاح الدین ایوبی جیسے کسی حکمران کے خواب دیکھتے ہیں تو یہ ایسا خواب ہے جو شاید قیامت تک شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا اس لیے عوام کو خواب غفلت سے جاگنا ہو گا اور اپنے ووٹ کا درست استعمال کرنا ہو گا۔
ویسے تو اس معاملے میں بھی پاکستان کچھ زیادہ ہی ترقی یافتہ واقع ہوا ہے چاہے کوئی سالوں پہلے انتقال کر گیا ہو یا کسی کا شناختی کارڈ بھی نہ بنا ہو، کوئی گھر میں بیٹھا ہو یا ہاسپٹل میں بستر مرگ پر ہو اس کا ووٹ اپنے حلقے میں کاسٹ ہو ہی جاتا ہے۔ اس کا تجربہ مجھے خود بھی ہو چکا ہے کیونکہ میں نے زندگی بھر کبھی ووٹ کاسٹ نہیں کیا، کوئی اس لائق لگا ہی نہیں، لیکن کئی بار میرا ووٹ کاسٹ ہوا، نجانے کیسے؟ مگر یہ معجزہ بھی صرف پاکستان میں رونما ہوتا ہے۔