بلاگزلائف سٹائل

بول کے لب آزاد ہیں تیرے

سندس بہروز            

 کچھ دن پہلے میری ملاقات ایک صحافی، دستاویزی فلم ساز اور بلاگر سبین آغا سے ہوئی۔ ان سے ملاقات کی کہانی انتہائی دلچسپ ہے۔ آئیے آپ کو بھی وہ روداد سناتی ہوں۔

سبین سے ملاقات ایک استاد کی حیثیت میں ہوئی۔ اب استاد کے ساتھ ہی ذہن میں رعب و دبدبہ، ناک پر موٹی سی عینک ٹکائے، رجسٹروں کا پلندہ بغل میں دبائے اور کاندھے پر بڑا سا بیگ ٹانگے بزرگ سی شخصیت کا تصور آتا ہے۔

بور ہو گئے یہ پڑھ کر؟ نہیں نہیں۔۔۔ میں آپ کو مزید بور نہیں کرتی۔۔۔ بس تھوڑا تجسس کو ہوا دے رہی ہوں۔

ٹی این این کی بلاگنگ ورکشاپ

تو جناب قصہ کچھ یوں ہے کہ ٹرائبل نیوز نیٹ ورک نے بلاگنگ کے موضوع پر پشاور میں نوآموز لڑکیوں کی ایک تربیتی ورکشاپ رکھی جس میں ظاہر ہے کہ سب نوجوان لڑکیاں تھیں۔

انتظار کی گھڑیاں طے کرتے جس بزرگ شاہکار کا انتظار تھا آخر وہ وارد ہوئی۔ نہ تو ناک پر موٹی سی عینک تھی اور نہ بغل میں رجسٹروں کا پلندہ، اور نہ ہی وہ  کوئی بزرگ تھی، وہ تو ہم جیسی ہی ایک لڑکی تھی، ایسا لگا جیسے کسی خوش مزاج دیرینہ دوست کی آمد ہو گئی ہو جس کی آواز سے رونگٹے نہیں کھڑے ہوتے بلکہ چہروں پر مسکان آ جائے۔

چونکہ مجھے بلاگنگ کے بارے میں زیادہ علم نہیں تھا اس لئے ذرا گھبرا رہی تھی۔ نئی جگہ، نئے لوگ اور موضوع کے حوالے سے لاعلمی کی وجہ سے تھوڑی چپ سادھ رکھی تھی۔

مگر بھلا ہو ہماری دوست نما استاد سبین آغا کا جس نے ہماری چپ کے قفل کو آواز کی چابی سے کھول دیا اور پھر کسی کو چپ رہنے کی بالکل اجازت نہ دی۔

الفاظ ،سوال اور ہماری کہانیاں

وہ ہماری کہانیاں سننا چاہتی تھی۔ ان الفاظ کو آواز دینا چاہتی تھی جن کا گلا گھونٹ گھونٹ کر ہم تھک چکے تھے مگر وہ الفاظ اب بھی ہمارے اندر زندہ تھے۔

اب ہم پریشان کہ بھئی کیا ہماری بھی کوئی کہانی ہے؟

کیا اپنی کہانی کی ہیروئن ہم خود ہیں؟ سبین نے تو یہی کہا کہ ہم ہی ہیں۔

یہ تو سوچ کا ایک نیا باب کھل گیا۔ ہمارے اندر افراتفری مچ گئی، کبھی کسی نے ہم سے ہماری کہانی پوچھی ہی نہیں تھی۔ ہم تو سمجھتے تھے کہ کہانیاں صرف بڑے اور مشہور لوگوں کی ہوتی ہیں۔

یہ کیسی استاد ہے بھئی جس نے دماغ میں زبردست گڑ بڑ مچا دی کہ تم ہو اور تہماری کہانی سننی ضروری ہے۔ ذہن کے مختلف کونوں سے واقعات اور الفاظ باہر آنے کو گویا مچلنے لگے، مگر شاید آج وہ بھی اپنا بدلہ لے رہے تھے یا شاید ہم نے ان کو اپنے ذہن کے تاریک کونوں میں دبا دیا تھا کہ جہاں سے اب وہ ملنے سے قاصر تھے۔

سوال مت کرو

وہ میری کہانی کی منتظر اور میں اپنے اندر کےحالات چھپانے میں کوشاں۔ اب ان کو کیا بتاتی کہ آپ جو پوچھ رہی ہیں وہ تو کبھی کسی نے پوچھا ہی نہیں یا یہ بتاؤں کہ لڑکیوں کے الفاظ کا گلا گھونٹنا تو خود مائیں گود سے ہی سکھانا شروع کرتی ہیں۔

اگر محفل میں بڑے بیٹھے گفتگو کر رہے ہوں اور میں اپنی رائے کا اظہار کرتی تو ماں فوراً ٹوک دیتی کہ بڑوں کے درمیان نہیں بولتے۔

بڑے جو بولتے ہیں وہ ہمیشہ ٹھیک کہتے ہیں، یوں میں بڑے ہونے کی تمنا کرتی کہ کب بڑی ہوں گی اور کب میری بھی سنی اور مانی جائے گی۔

مدرسہ میں سوال کرتی تو وہاں استانی جی ڈانٹ کر خاموش کرتی کہ خوامخواہ سوال مت کرو۔ میری آواز ڈر کے غار میں جا کر جھپ کر بیٹھ جاتی۔ یہ تو بہت بعد میں جانا کہ استانی جی کو جن جوابات کا علم نہ تھا ان سوالات سے بچنے کے لئے وہ مجھے بولنے نہ دیتی۔ اس کی کم علمی کی سزا میری بند آواز نے دی۔ یوں میرے سوال روز اپنی موت آپ مرتے رہے۔

شاید "مجھے نہیں پتہ” کہنا یا تسلیم کرنا کوئی پل صراط تھا۔

اچھی لڑکیاں بولتی نہیں

شام میں جب دادی کے پاس کہانی سننے بیٹھتی تو وہ  ہمیں ان "اچھی” لڑکیوں کی کہانی سناتی جو چپ رہتی ہیں، ہر بات پر سر جھکا کر عمل کرتی ہیں اور جو تیز آواز سے نہیں ہنستی، نہ غصے میں آواز تیز کرتی ہیں۔ میں نے بھی تہیہ کر لیا کہ مجھے بھی "اچھی لڑکی” بننا ہے تاکہ دادی پھر میری کہانی بھی سنائیں۔ اس چکر میں کچھ اور سوال اللہ کو پیارے ہو گئے۔

اسکول میں اگر استانی جی سے کچھ پوچھ لیتی یا کسی بات پر تنقید کرتی تو وہ یہ کہہ کر چپ کروا دیتی کہ اچھے بچے تنقید نہیں کرتے۔ یہ "اچھی بچی” بننے کا لالچ پھر سے الفاظ ذہن کے تاریک گوشوں میں دھکیل دیتا۔

سندس کی کہانی سندس کی زبانی

سالوں سے اپنے الفاظ کا گلا گھونٹنے والی لڑکیوں کو سبین آغا کہتی ہے "بول کہ لب آزاد ہیں تیرے”

وہ الفاظ اور سوالوں کی ان قبروں کو کھودنا چاہتی ہے، ان پر سے مٹی ہٹا کر ان میں پھر سے روح پھونکنا چاہتی ہے، جنہیں بند ذہنوں کی فرسودہ سوچ نے زندہ ہی دفن کر دیا تھا ۔

اس دفن شدہ خزانے کو ذہن سے کرید کر نکالنے کے لئے وقت چاہئے تھا جو مجھے وافر ملا۔ بکھرے ہوئے الفاظ کو یکجا کرنا مشکل تو تھا مگر جیسے ہی ان کو خبر ہوئی کہ کوئی سننے کو منتظر ہے تو تازہ دم ہونے لگے۔ ہر لفظ ایک دوسرے سے آگے جانے کی کوشش میں تھا کہ اب ان تاریک کونوں میں ان کا بھی دم گھٹنے لگا تھا۔

یوں میں نے اپنی کہانی سبین آغا اور ٹریننگ میں موجود میری ساتھیوں کو آخر سنا ہی دی۔

میں نے خود سے عہد کیا کہ اب میں اپنے الفاظ کو کبھی بھی چپ کی چادر اوڑھنے نہیں دوں گی۔۔ کیونکہ سبین آغا کی طرح اب میں بھی یہی سمجھتی ہوں کہ میرے لب آزاد ہیں۔

کیا آپ کے لب بھی آزاد ہیں؟

سندس بہروز ٹیچنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں اور مختلف سماجی  اور صنفی موضوعات پر بلاگ اور شارٹ اسٹوریز لکھتی ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button