بلاگزلائف سٹائل

”کنڈہ” (بیوہ) صاف ستھرے کپڑے نہیں پہن سکتی!

رعناز

خواتین معاشرے کی تعمیر کا اہم اور لازمی جزو ہیں۔ میں ذاتی طور پر ایسی کئی خواتین کو جانتی ہوں جو بیوہ ہیں یا ان کی اپنے شوہر سے علیحدگی ہو گئی ہے مگر وہ ڈٹ کر اس پدرشاہی معاشرے کی بیوہ مخالف سوچ کا مقابلہ بھی کر رہی ہیں اور ہمت و حوصلے کے ساتھ اپنے بچوں کو پال بھی رہی ہیں۔

میری خالہ بھی ایسی ہی ایک خاتون ہیں جن کے شوہر کا انتقال ہو چکا ہے۔ وہ ایک بوتیک میں نوکری کرتی ہیں۔

مگر وہ جب بھی صاف ستھرے کپڑے پہن کر نوکری کرنے کیلئے گھر سے نکلتی ہیں تو ان کے جیسی ایک دوسری عورت یعنی میری ممانی ان کے کردار کو نشانہ بنا کر طنز کے تیروں سے چھلنی کر دیتی ہے کہ پتہ نہیں ایسے بن ٹھن کر کس کو دکھانے جا رہی ہے۔

تو میں سوچنے پر مجبور ہوتی ہوں کہ کیا وہ گندے کپڑوں میں نوکری پر جائیں گی؟ کیا عورت کے لئے صاف ستھرے کپڑے پہننے کا حق اس کے شوہر کے ساتھ قبر میں دفن ہو جاتا ہے؟ کیا گندے کپڑے پہننے سے میری خالہ باکردار اور صاف کپڑے پہننے سے بدکردار ہو جائے گی؟ اگر ممانی کی اپنی ہی بہن بیوہ ہوتی اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے گھر سے باہر نکلتی تو کیا وہ اسے بھی بدکردار سمجھتی؟

میرے خالو نے تو اپنے اوپر پٹرول چھڑک کر خود کو زندگی کی قید سے آزاد کرا لیا تھا، مگر پدرسری کے شکار اس عورت مخالف گلے سڑے معاشرے نے میری جیتی جاگتی خالہ کی زندگی  اور ان کے جائز حقوق پر بھی گویا پٹرول چھڑک دیا ہو اور انہیں معاشرتی بدصورتی کی آگ میں زندہ جھونک دیا ہو۔

کیا بیوہ زندہ انسان نہیں ہے؟

خیر ایک ممانی تو نہیں تھی جسے سمجھایا جائے کہ اگر ایک عورت بیوہ ہو جائے تو اس کی زندگی ختم تو نہیں ہو جاتی تو پھر کیوں یہ معاشرہ اس سے جینے کا حق چھین لیتا ہے؟

جب ایک عورت بیوہ ہو جاتی ہے تو اس کے سسرال والے سب سے پہلے اس کے ساتھ وراثت کے حصے پر لڑائی جھگڑے کرنا شروع کر دیتے ہیں، جاگیر بچانے کے لئے سسرال والے اپنے ہی خاندان کے کسی شخص کے ساتھ اس کا نکاح کرنا چاہتے ہیں۔ اگر وہ انکار کر دے  تو اسے گھر سے نکال کر اسے اس کے والدین کے گھر بھیج دیتے ہیں۔

یہاں پر میں یہ سوال کرنا چاہوں گی  کہ کیا بیوہ زندہ انسان نہیں ہے؟ کیا اسے اپنی زندگی کا فیصلہ خود کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے؟ کیا بیوہ ہونا کوئی قصور ہے جو اس عورت سے سرزد ہو گیا ہے جس کی پاداش میں سزا کے طور پر وہ صاف ستھرے کپڑے نہیں پہن سکتی؟

ظالم معاشرے  کی باتوں کی وجہ سے نہ وہ اچھے کپڑے پہن سکتی ہے نہ وہ اپنی مرضی سے گھر سے باہر جا سکتی ہے۔ ہمیشہ اس کے دل میں ایک ہی ڈر ہوتا ہے کہ کوئی میرے کردار پر انگلی نہ اٹھائے۔ مطلب ہمارے معاشرے کے لوگوں کے خیال میں بیوہ عورت زندہ انسان ہے ہی نہیں۔

کیا بیوہ کے بچوں کو جینے کا حق حاصل نہیں ہوتا؟

اگر بیوہ عورت گھر سے باہر نکلتی ہے اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے، ان کا اچھا مستقبل بنانے کے لیے تو یہ معاشرہ اس پر بدکرداری کی تہمت لگا دیتا ہے، یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اگر بیوہ عورت جس کی پہلی شادی سے بچے ہوں، وہ دوسری شادی کرنا چاہے تو دوسرے سسرال والے یہ شرط رکھتے ہیں کہ انہیں وہ عورت تو قبول ہو سکتی ہے مگر اس کے پہلے شوہر کے بچے قبول نہیں۔

اس کے برعکس، اگر مرد دوسری شادی کرتا ہے تو وہ اپنی پہلی شادی سے ہونے والے بچوں کو دوسری عورت کی گود میں ڈال کر توقع کرتا ہے کہ وہ انہیں بھی ویسے ہی سنبھالے گی جیسے اپنے بچوں کو پالتی ہے۔ مگر یہی مرد اس کی پہلی شادی سے ہونے والے بچے ہرگز قبول نہیں کرتا۔ تو یوں ان بچوں کا روشن مستقبل اندھیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔

اسلام میں بیوہ عورت کا مقام

میرا ماننا ہے کہ دین اسلام وہ مذہب ہے جس نے بیوہ عورت کے فطری حقوق کو تسلیم کیا۔ پیغمبر اسلام نے اپنے شباب کے زمانے میں بیوہ عورت سے نکاح کر کے مثال بھی قائم کی کہ یہ عورتیں معاشرے کا اہم اور عزت دار حصہ ہیں۔ بیوہ عورتوں کے ساتھ خاص طور پر حسن سلوک کا ذکر ہے۔ اسلام میں تو ان کی مدد کی ترغیب دی گئی ہے۔ ان کی دوسری شادی کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے اور جو ایسا نہیں کرنا چاہتی اس کی بھی اسے آزادی حاصل ہے۔

ہمیں بھی بیوہ عورت کے فطری حقوق کو تسلیم کرنا ہو گا۔ اگر وہ گھر سے باہر جاتی ہے تو اس کے گھر والوں کو اس کی ڈھال بننا ہو گا۔ اگر دوسرے نکاح کا حق اسلام نے تسلیم کیا ہے تو اس معاشرے کے لوگوں کو اعتراض کا کوئی حق نہیں۔  بے شک وہ بیوہ ہے مگر گنہگار نہیں کہ ہر کوئی اس کو بری نظر سے دیکھے۔ اب ہمیں اپنی سوچ بدلنی ہو گی۔ بیوہ پر لگنے والی بے جاء پابندیوں کو ختم کرنا ہو گا۔ اسے یہ حوصلہ دینا ہو گا کہ وہ اپنے حق کے لیے آواز اٹھائے۔ اور اپنے اچھے برے کا فیصلہ خود کرے۔

کیا آپ بھی بیوہ عورتوں کے حقوق کو تسلیم کریں گے اور انہیں تحفظ دیں گے؟

 رعناز ٹیچنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں اور صنفی اور سماجی مسائل پر بلاگنگ بھی کرتی ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button