کیا میں اڑتا ہوا پرندہ بن سکتی ہوں؟
شمائلہ آفریدی
میں ہمیشہ سوچتی تھی کہ کیا انسان کی اس دنیا میں آمد رسوم و رواج، ثقافت اور مذہب سمیت ہوتی ہے یا پھر اس کی پیدائش آزاد پرندے جیسی ہوتی ہے؟
اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لئے بہت سوچا۔ بالآخر اس نتیجے پر پہنچی کہ انسان تو صرف انسانیت ہی لے کر پیدا ہوتا ہے، کسی آزاد پرندے کی طرح مگر یہ معاشرہ اس کی ذہن سازی اور تربیت روایات اور مذہب کی بنیاد پر کرتا ہے جس سے وہ اپنی آزادی بھولتا جاتا ہے اور ان دیکھی زنجیروں سے انسیت پیدا کر لیتا ہے۔
رسم و رواج اور مذیب کی ان دیکھی بندش
میں ایک ایسی عورت ہوں جو روایات کی ان دیکھی زنجیروں سے انسیت کے باوجود آزاد پرندے کی طرح کھلی فضا میں اڑان بھرنا چاہتی ہوں۔ لیکن میرے سماج میں مرد کو تو پرواز کرنے دیا جاتا ہے لیکن عورت کیلئے یہ معاشرہ ایک ایسے گھونسلے کی مانند ہے جس کی بنیاد مذہب اور رواج کے تنکوں کو لے کر بنائی گئی ہے جو اس کی اڑان کو مشکل بناتی ہے۔ وہ گھٹ گھٹ کر گھونسلے میں جئے گی اور مرے گی لیکن وہ کبھی ازاد اڑتا ہوا پرندہ نہیں بن سکے گی۔
میں بھی آزاد پیدا ہوئی تھی، مذہب، رسم و رواج اور ثقافت کی قید سے آزاد، جب شعور کی منزلوں تک پہنچی تو میں اڑان چاہتی تھی، لیکن مجھے روایت، ثقافت اور مذہب کے نام پر ایسا سبق سکھایا گیا کہ جس نے مجھ سے اڑنے کے پر چھین لئے۔ میں نے دین اسلام کے دائرے میں رہتے ہئے اپنے حقوق کی بات کی مگر اس پر بھی سماج نے مجھے روشن خیال لڑکی کا خطاب دے ڈالا، جیسے روشن خیالی نعمت نہیں بلکہ کوئی تہمت ہو۔
فرسودہ روایات کی بھاری قیمت عورت ہی دے گی؟
میرے مذہب کے طے کئے گئےحقوق کے مطابق میری اڑان ممکن ہے لیکن میرا سماج مجھے اجازت نہیں دیتا کہ میں اس تک رسائی حاصل کر سکوں، اگر میں نے ایسا کیا تو مجھے جہنمی لڑکی کا خطاب دیا جاتا ہے۔
میں جب مذہب کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی پسند اور ناپسند یا اپنی مرضی کا اظہار کروں تب بھی یہ معاشرہ مجھ پر بدکرداری کے فتوے لگانے شروع کر دیتا ہے۔ انہی فرسودہ روایات اور مذہب کے غلط تصور کو ہمارے ذہنوں میں پیوست کر کے ہمارے پروں کو کاٹ دیا جاتا ہے کہ ہم اس گھونسلے سے نکل کر آزادی سے جی نہ سکیں۔ اور بدقسمتی یہ ہے کہ یہ قیمت صرف عورت ہی ادا کرتی ہے۔
کیا میری اڑان ممکن ہے؟
میں کھل کر جینا چاہتی ہوں، اپنی پسند اور ناپسند کا برملا اظہار کرنا چاہتی ہوں، اپنی مرضی کا اظہار چاہتی ہوں تاکہ کامیابیوں کی سیڑھیوں پر چڑھ سکوں، کھلی فضاؤں میں ازادی کے ساتھ جی سکوں، جو میں سوچتی ہوں اس تک بے خوف وخطر رسائی حاصل کر سکوں لیکن جب میں نیت کر کے پرواز کرنے کی کوشش کرتی ہوں تو میرے قدموں سے لپٹی یہ تمام ان دیکھی زنجیریں مجھے اڑان سے روکتی ہیں، مجھے بتایا جاتا ہے کہ تم اس سماج میں تو اڑان نہیں بھر سکتی، جو تم چاہتی ہو ایسا نہیں بلکہ یہ معاشرہ تم سے جو توقع رکھتا ہے تم نے وہ کرنا ہے، تمہیں خود کو روکنا ہو گا اور اس طرح میری طرح نجانے کتنی عورتیں فرسودہ خیالات، رسم و رواج کی بھینٹ چڑھ کر ہر روز ایک نیا احساس دفن کرتی ہوں گی۔
کیا آزادی میرا حق نہیں؟ کیا کبھی آپ نے آزادی سے اڑنے کے بارے میں سوچا ہے؟
شمائلہ آفریدی سوشل ایکٹوسٹ ہے اور گزشتہ تین سال سے سماجی مسائل پر بلاگز لکھ رہی ہیں۔
نوٹ: یہ بلاگ ٹی این این کی حال ہی میں بلاگرز کے لئے پشاور میں منعقد کی جانے والی ٹریننگ کے دوران لکھا گیا تھا۔