نوشین فاطمہ
ہوش سنبھالتے ہی جنہیں فلمی کرداروں کی طرح پیار کرتے دیکھا وہ میرے ماموں اور ممانی تھے، مگر معاشرے کی نظر میں ان کے پیار کی کہانی ادھوری تھی کیونکہ ان کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی۔ خاندان والے ان سے خوش نہیں تھے۔ اس خوشی کی قیمت وہ ممانی جان کو ماموں سے الگ کر کے وصول کرنا چاہتے تھے تاکہ ماموں کی نسل آگے بڑھ سکے۔ ممانی اپنی محبت اور اپنی شناخت, جو معاشرے نے عورت کے مرد سے جڑے رہنے سے طے کر دی ہے، دونوں کو بچانے کے لئے ہر قسم کا ٹونہ ٹوٹکا آزماتی، اور عطائیوں سے علاج کراتی رہی۔ کچھ عطائیوں نے اس کی مجبوری اور خواہش دونوں کا فائدہ غیرضروری اور خطرناک آپریشنوں کے زریعے اٹھایا جس کی وجہ سے ممانی کو بالآخر بچہ دانی کا کینسر ہو گیا، ظاہر ہے بچہ دانی تھی، عورت نہیں جو چپ چاپ یہ ظلم سہتی۔ وہ احتجاج جو ممانی نہ کر سکی ان کی بچہ دانی کر دیا۔
ممانی اپنی محبت اور اپنی معاشرتی شناخت یعنی اپنا شوہر بچانے کے لئے خاندان، معاشرے اور بچہ دانی کے وار سہتے سہتے ایک دن جان کی بازی ہار گئیں۔
پدرشاہی نظام کی مضبوط جڑیں
اس نظام کا شکنجہ اتنا مضبوط اور امتیازی ہے کہ یہ ہر بیماری اور کمی کو عورت کے کھاتے میں ڈال دیتا ہے۔ مرد کو ہم انسان سے بھی کوئی اعلی درجہ دینا چاہتے ہیں، جس میں کوئی کمزوری یا اسے کوئی بیماری نہیں ہو سکتی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دیواریں جگہ جگہ ان کی کمزوریوں کی داستانیں سنا رہی ہوتی ہیں مگر یہ پدرشاہی معاشرہ صرف عورت کو تجربہ گاہ سمجھتا ہے جس پر ہر قسم کا میڈیکل، روحانی، خلائی و جادوئی تجربہ کیا جاتا ہے کہ اولاد کیوں نہیں ہو رہی۔ جبکہ دوسری طرف مرد کسی بھی تجربے کی بھٹی سے گزرے بغیر دوسری شادی کر لیتا ہے۔ اس پورے عرصے میں میرے ماموں کا کوئی میڈیکل ٹیسٹ نہیں کیا گیا تھا یہ تعین کرنے کے لئے کہ کمی کہیں ان میں تو نہیں کیونکہ ظاہر ہے، وہ تو مرد ہے ، اسے کیسے کوئی کمزوری ہو سکتی ہے۔
ازخود علاج
المیہ یہ بھی ہے کہ تعلیم کی شرح جو بھی ہو لیکن ہر محلے، گاوں اور شہر میں آپ کو ضرور ایسے لوگ ملیں گے جو آپ کے الٹراساؤنڈ اور ٹیسٹ کر کے آپ کو دوائی بھی تجویز کر دیں گے اور کم تعلیم یافتہ لوگ ان کی قدر بھی کریں گے کہ عورت اس مسئلے کو کیسے گھر میں ہی طے کرنے کی کوشش کر کے اپنی اور اپنے خاندان کی نسل بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ذمے داری لینے یا اٹھانے سے ویسے بھی اس قوم کی جان جاتی ہے۔ کچھ عطائی تو دوائی دیتے ہوئے ہی عندیہ بھی دیتے ہیں کہ بیٹا ہی ہو گا اور ساتھ ہی قیمتی تحفوں اور بڑی رقم بھی مانگ لیتے ہیں، جبکہ بیٹی کا تو تذکرہ بھی جیسے گناہ کی صورت نہیں کیا جاتا۔ میں نے ان دائیوں کو کسی مرد پر ایسی پریکٹس کرتے نہیں دیکھا۔
کسی نے جاننے کی کوشش نہ کی کہ ممکن تھا کہ کمی ماموں میں ہو۔ کیونکہ صنفی امتیاز کی عینک چڑھائے معاشرے کو کمی صرف عورت میں ہی دکھائی دیتی ہے۔ ممانی کے انتقال نے ماموں کے نشے کی عادت کو مزید پختہ کر دیا۔ گو کہ خاندان والوں سے ناراض رہے مگر ان کے دباؤ میں آ کر بالآخر دوسری شادی کر لی۔ خدا کا کرنا دیکھئے کہ شادی کے چار سال بعد تک آج بھی ان کے ہاں اولاد نہیں۔ اب میں سوچتی ہوں کہ بانجھ ممانی نہیں ماموں تھے۔
کیا مستند گائناکولوجسٹ کے پاس جانا اتنا بڑا مسئلہ ہے کہ آپ اپنے کسی پیارے کی جان ہی لے لیں؟ میں نے اپنی ممانی کو بانجھ پن کا الزام ختم کرنے کے لیے اذیت ناک موت کے حوالے ہوتے دیکھا ہے۔
اولاد قدرت کا خوبصورت تحفہ ہے، لیکن کیا اولاد نہ ہونے کی ذمہ دار صرف عورت ہی ہوتی ہے۔ کیا بانجھ صرف عورت ہی ہوتی ہے، مرد نہیں ہو سکتا؟
نوٹ: نوشین فاطمہ ایک سماجی کارکن اور بلاگر ہیں۔ یہ بلاگ ٹی این این کی حال ہی میں بلاگرز کے لئے پشاور میں منعقد کی جانے والی ٹریننگ کے دوران لکھا گیا تھا۔