"کاش میں لڑکا ہوتی۔۔۔۔!”
مہرین خالد
یہ جملہ تقریباً ہر لڑکی بولتی ہے اور بچپن میں لڑکا بننے کی خواہش ظاہر کرتی ہے۔ یہ خواہش میں نے بھی بچپن میں کی تھی، اور کیوں نہ کرتی جب گھر میں ابو کے علاوہ کوئی مرد نہ تھا۔
ہم نے بھی اپنے بچپن کی مردانگی یعنی زور "مینو” پہ نکالی ہے۔ مینو ہمارے محلے کی ایک پاگل سی لڑکی تھی جو ہمیشہ اپنے بھائی کے نام سے مجھے ڈراتی تھی۔ کہنے کو تو مینو پاگل تھی لیکن عقل میں ہم سے بھی چار قدم آگے تھی۔ ہم نے مینو کو ہمیشہ اپنے گاؤں کے لڑکے "جادون” کی نظر سے دیکھا ہے جو دوسروں کو کم عقل اور بے وقوف سمجھتا ہے اور خود کو عقل کا بادشاہ!
خیر مینو ہمارے جذبات کو قابو کرنا اچھے سے جانتی تھی یعنی بھائی کی دھمکی دے کر۔ ہمارے لڑکا بننے میں ابو کے ہاسٹل کے جوان مردوں یعنی لڑکوں کا بھی ہاتھ تھا۔ رنگ برنگ کپڑوں میں ملبوس، چھوٹے بڑے قد اور مختلف زبانیں، ہاسٹل کے وہ لڑکے جو ہمارے سائیکل چلانے سے ہماری حوصلہ افزائی کرتے کہ تم خالد خان کی بیٹیاں نہیں بیٹے ہو کیونکہ ہم چار بہنیں تھیں۔
لیکن امی کو ہمارا یہ روپ کہاں پسند تھا۔
سمجھ نہیں پائی امی جو خود بھائی اور بیٹے جیسی نعمت سے محروم تھیں لیکن کبھی ہماری طرح لڑکا بننے یا ہونے کی خواہش ظاہر نہیں کی۔ جب محلے کے غنڈے یعنی بدمعاش لڑکے ہمارے ہاتھوں دھلائی کے بعد امی سے شکوہ کرتے تو امی کسی ہٹلر سے کم نظر نہ آتیں اور ان غنڈوں کی خوشی کو تاب میں لاتے ہوئے ہم کو یوں رسید کے لگاتیں کہ سانس واپس آنے میں یوں لگتا جیسے موت کی آخری ہچکی ہو۔
ہماری یہ دھلائی صرف محلے تک محدود نہیں تھی بلکہ ہمارے گھر کے پاس سکول جہاں سے ہم پڑھائی کرتے تھے وہاں بھی کم نہ تھی۔ خیر اس سکول کا تذکرہ پھر کبھی۔۔۔
ہماری اچھی پڑھائی کے لیے ابو نے شہر کے بڑے سکول میں ہمیں داخل کروایا۔ پڑھائی کی تو سمجھ آتی تھی لیکن وہاں کچھ عاشق و محبوب کی عاشق و معشوقی سمجھ سے باہر تھی۔
چھٹی کے وقت یہ عاشق بس کا طواف کرتے؛ کبھی ایک طرف تو کبھی دوسری طرف کھڑے ہو کر اپنی محبوبہ کو کبھی ایک آنکھ تو کبھی دوسری آنکھ سے دیکھتے۔ ہم سمجھنے سے قاصر تھے کہ ایک آنکھ سے بھلا کون دیکھتا ہے؟ کیونکہ محبوبہ بھی تو دونوں آنکھوں سے دیکھ رہی ہوتی تھی، تو کبھی پریم کی چٹھی ہوا کے جھونکے سے محبوبہ کی گود میں آن گرتی۔ خیر یہاں سے کاش "میں لڑکا ہوتی ” کا زور کم ہونے لگا۔
پھر امی کے انتقال کے بعد ابو نے جب دوسری شادی کی اور کچھ سال بعد ہمارا بھائی پیدا ہوا اور تجسس کا شوق بھی پیدائشی ساتھ لایا یعنی کسی انویسٹیگیشن آفیسر سے کم نہیں لگتا تھا، اس کے اس شوق نے کاش "میں لڑکا ہوتی” کا زور مزید کم کر دیا۔
پھر اللہ کے فضل سے پچھلے دنوں ایک "فیلو شپ” میں میری سلیکشن ہوئی۔ اس فیلوشپ کے لیے ہماری ٹریننگ لینا لازمی تھا۔ خیر ٹریننگ لینے کے بعد ہم پانچ خواتین کسی ہوٹل میں کھانا کھانے کے لیے گاڑی میں سوار ہوئیں۔
گاڑی ابھی راستے میں ہی تھی کہ اچانک موٹرسائیکل پر تین بندر میرا مطلب بندے یعنی لڑکے نمودار ہوئے اور ہمارے چادر سے ڈھکے معصوم سے چہروں کو دیکھ کر ایک زبردست قسم کی چیخ لگائی اور ادھر میرا یہ شوق "کاش میں لڑکا ہوتی” دم توڑ گیا اور آسمان کی طرف اوپر دیکھ کر شکر ادا کیا کہ میں لڑکی ہوں۔
شاید مجھے اس لیے بھی لڑکی بنایا گیا کہ میں کسی کا گھر تک پیچھا نہیں کر پاؤں یا پھر شاید اس لیے کہ میں کسی کو ایک آنکھ سے نہ دیکھ پاؤں یا پھر اس لیے کہ محبت کے نام پر کسی کو نہ چھوڑ پاؤں یا پھر اس لیے کہ میں کسی کی زندگی کو محدود نہ کر پاؤں یا شاید اس لیے کہ امی ہم میں سگھڑ و مضبوط عورت کی روح پھونکنا چاہتی تھیں۔
لڑکیوں سے میرا سوال؛ کیا آپ نے بھی کبھی لڑکا بننے یا ہونے کی خواہش کی ہے؟