بلاگزلائف سٹائل

اجڑے گھر کا ذمہ دار کون، ماں یا باپ؟

حناگل

اللہ نے اس دنیا کو بنایا، پھر اس دنیا کو چلانے کے لئے ہر ایک چیز بنائی اور اس میں خاص رول انسان کو دیا۔ اللہ نے انسان کو پیدا کیا اور پھر نظام کو بہتر طریقے سے چلانے کے لیے انسانوں کے جوڑے بنائے، یہ ایک خاص نظام ہے جو ایک تسلسل سے چلا آ رہا ہے۔

میاں بیوی اسی جوڑے کا نام ہے جو کہ بہت اہم اور گھر کے نظام کو برقرار رکھنے کا ایک بنیادی جزو ہے جیسا کہ خلیہ انسانی جسم کے لیے ایک اکائی ہے جس سے پورا جسم بنتا ہے۔ اسی طرح اللہ کا قائم کردہ میاں بیوی کا یہ رشتہ بھی ایک گھر کا نظام بنانے میں خلیے کا کردار ادا کرتا ہے۔ اسی جوڑے کا ایک کردار پھر والدین کی شکل میں بھی ہے۔

گھر کے ماحول کو خوش گوار بنانے میں ماں باپ کا ہی اہم کردار ہوتا ہے، یہ دونوں شادی کے بعد ایک مخصوص وقت کے لیے بہت اچھا وقت گزارتے ہیں لیکن پھر ایک وقت آتا ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرتے۔

کیا کبھی ہم نے سوچا کہ یہ کیوں ہوتا ہے؟

میں جانتی ہوں جیسا میں نے کبھی نہیں سوچا آپ لوگوں نے بھی کبھی نہیں سوچا ہو گا۔ چلو آج مل کر سوچتے ہیں کہ گھر کا نظام کیوں برباد ہوتا ہے اور اس میں ماں باپ میں سے کس کا بنیادی ہاتھ ہوتا ہے۔

ماں کا: نہیں، نہیں! ماں نے تو پوری زندگی ہاں کہتے کہتے گزاری، پہلے باپ کے گھر، بعد میں شوہر کے گھر جی حضور کہتے کہتے آخر میں موت کی نیند سو جاتی ہے۔

باپ پہلے بیٹے کے روپ میں گھر کا شیر ہوتا ہے، پھر شوہر کے روپ میں گھر کا کامریڈ بننے کے بجائے کمانڈر بن جاتا ہے، اور پھر وہی کرتا ہے جو اس کا من کرتا ہے۔ اس کے پاس سارے اختیارات ہوتے ہیں اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ وہ اپنے آپ کو گھر کا بادشاہ سمجھنے لگتا ہے۔ اس کا رویہ اتنا جابرانہ ہوتا ہے کہ برداشت سے باہر ہو جاتا ہے، ہر بات پہ غصہ اور ایسے بول بولتا ہے کہ وہ ایک انسان کی برداشت سے باہر ہوتے ہیں، ایک ہے ہاتھ سے مارنا دوسرا بول سے وار کرنا، ہاتھ سے مارنے سے صرف ایک جسم اور ایک بندہ متاثر ہوتا ہے، لیکن بول کے وار سے ایک انسان مطلب صرف بیوی نہیں بلکہ گھر کے سارے افراد متاثر ہوتے ہیں، باپ کا برا رویہ دیکھ کر بیٹے بھی برا رویہ اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

اور پھر اگر وہ باپ کے رویے کو اپناتے ہوئے اپنی بیوی کو اپنے باپ سے سیکھے ہوئے رویے سے ٹریٹ کرتا گیا تو اس کا اپنا گھر بھی برباد ہو جاتا ہے، ایک باپ کے رویے سے دو گھر اجڑ جاتے ہیں، اپنا بھی اور پھر بیٹے کا بھی!

گھر کا نظام صرف درہم برہم نہیں ہوتا بلکہ بچے باپ کے اس رویے کے اتنے عادی ہو جاتے ہیں کہ باپ نہ کامریڈ رہتا ہے اور نہ کمانڈر بلکہ ایک گیدڑ بن جاتا ہے، پھر اس سے کوئی نہیں ڈرتا، اس کے الفاظ ہوا کی طرح گزرتے ہیں اور اثر کھو دیتے ہیں، اور ہنستے بستے گھر ایسے اجڑ جاتے ہیں کہ پھر دوبارہ بستے نہیں۔

ماں باپ دونوں گاڑی کے پیہوں کی طرح ہوتے ہیں، اگر ان میں سے ایک کے اندر بھی تھوڑا فالٹ آ جائے تو پوری گاڑی چلنے سے قاصر ہو جاتی ہے۔ آگر گھر کے ماحول کو خوشگوار رکھنا ہے تو اس میں بسنے والے ہر فرد کو اپنا رویہ اور رول اک حد میں رکھنا ہو گا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button