خودپسندی: ہر بات ”میں” سے شروع ”میں” پر ہی ختم
حمیرا علیم
کالنز انگلش ڈکشنری کے مطابق اس کا مطلب ہے اپنے آپ خاص طور پر اپنے روپ میں غیرمعمولی دلچسپی اور اس سے متاثر ہونا۔ یہ اپنی اہمیت اور صلاحیتوں کے حد سے بڑھے ہوئے احساس اور اپنے آپ میں دلچسپی کا دوسرا نام ہے۔ اس کے شکار لوگ صرف اپنی ذات کے بارے میں سوچتے ہیں۔ اسی لیے خودغرض، متکبر اور کم ظرف ہوتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں اور اپنے غلط فیصلوں پہ اکڑ جاتے ہیں۔ جب اسے ان کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے تو دوسروں کو اپنی ناکامی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ وہ موڈ سوئنگز کے ماہر ہوتے ہیں۔ اپنی غرض کے لیے نہایت خوش اخلاق اور دوستانہ رویہ ظاہر کرتے ہیں اور غرض پوری ہوتے ہی تبدیل ہو جاتے ہیں۔
خود تو ہر شخص اور ہر چیز پہ تنقید کرتے ہیں، اسے برا کہتے ہیں لیکن اگر کوئی ان کی کسی بات پہ تنقید کرے تو آپے سے باہر ہو جاتے ہیں اور اونچا اونچا بول کر اگلے کو دھمکانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہر بات پہ اختلاف اپنا حق سمجھتے ہیں لیکن اگر کوئی اور ان سے اختلاف کی جرات کر لے تو ہنگامہ کھڑا کر دیتے ہیں۔ اور اسے اپنی ذات پہ حملہ تصور کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ دوسرے ان کی ہر غلط بات پہ بھی آمنا صدقنا کہیں۔ دوسروں کی تذلیل، انہیں حقیر جاننا، ان پہ بیجا تنقید کرنا، ان کا مذاق اڑانا، انہیں دماغی مریض قرار دینا ان کی فطرت میں ہوتا ہے۔
ان کی ہر بات ”میں” سے شروع ہو کر ”میں” پر ہی ختم ہوتی ہے۔ اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھتے ہیں۔ دوسروں کے جذبات سے کھیلنا، شیخی بھگارنا، اپنی معمولی چیز، عمل کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنا، دوسروں کے حق پہ ڈاکا ڈالنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔
خودپسندی کے کچھ ایسے پہلو ہیں جو کسی حد تک شاید ہم سب میں موجود ہیں لیکن زیادہ تر معاملوں میں یہ ایک بیماری کی شکل میں سامنے آتی ہے جیسے نارسیسٹک پرسنیلیٹی ڈس آرڈر (این پی ڈی) یعنی یہ خیال ہونا کہ آپ بہت اہم ہیں۔
خودپسندی کا علاج آسان نہیں۔ ایک تو یہ کہ خودپسندی کے مریض دوسروں کو قصور وار ٹھہراتے ہیں اور ان سے یہ منوانا کہ مسئلہ ان کے ساتھ ہے مشکل کام ہے۔ کہا جاتا ہے کہ خودپسندی عمر کے ساتھ کم ہوتی جاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق ایک بات جو دنیا بھر کے لیے سچ ہے وہ یہ ہے کہ بڑی عمر کے لوگوں میں نوجوانوں کے مقابلے میں خودپسندی کا رجحان کم ہوتا ہے۔ لیکن اکثر یہ خیال غلط ہوتا نظر آتا ہے کیونکہ خودپسند شخص کی عادات وقت کے ساتھ ساتھ پختہ ہوتی جاتی ہیں۔
ایک برطانوی کنسلٹنٹ ڈاکٹر ٹینیسن لی کے مطابق اس بیماری کو پرکھنے کے نو نکات ہیں جو پوری دنیا میں رائج ہیں۔ خودپسندی کا مریض قرار دیے جانے کے لیے ان نو میں سے پانچ شرائط پوری ہونی چاہئیں۔
1: اپنی اہمیت کا انتہائی احساس
2: کامیابی اور طاقت کے بارے میں وہم ہونا
3: اپنے آپ کو انوکھا اور منفرد خیال کرنا
4: سراہے جانے کی حد سے زیادہ طلب
5: ہر چیز پر اپنا حق سمجھنا
6: باہمی رشتوں میں صرف اپنے بارے میں سوچنا
7: ہمدردی کے احساس کی کمی
8: ہر ایک پر رشک کرنا
9: مغرور اور گھمنڈی رویے رکھنا
ہم سب کے ملنے جلنے والوں میں غالباً ایسے لوگ ہوں گے جن میں ان میں سے کچھ خصوصیات موجود ہوں گی لیکن یہ بیماری کب بن جاتی ہیں؟ لی کے مطابق: "ایسا اس وقت کہا جا سکتا ہے جب ان خصوصیات کی وجہ سے یہ لوگ اپنے لیے یا دوسروں کے لیے پریشانیاں اور مشکلات پیدا کرنا شروع کر دیں۔”
ڈائگنوسٹک اینڈ سٹیٹیسٹیکل مینوئل کے معیار کے مطابق کی گئی ایک تحقیق کے مطابق امریکی آبادی کا 6 فیصد خودپسندی کا شکار ہے۔ ہمارے ہاں لوگ نفسیاتی ڈاکٹر کے پاس جانے کو پاگل پن کی علامت سمجھتے ہیں اس لیے یہاں ایسے اسٹیٹکس موجود نہیں ہیں۔ ڈاکٹر لی کا کہنا ہے کہ یہ بیماری ہے جس پر میڈیکل کے میدان میں ابھی زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ ان کے خیال میں یہ مسئلہ ہمارے اندازے سے زیادہ بڑا ہے۔
انوشکا مارسن جنہوں نے خودپسندی کی علامات دکھانے والے اپنے شریکِ حیات کو چھوڑ دیا تھا اور اب نفسیات کی کنسلٹنٹ کا کام کرتی ہیں خودپسندی کے مریضوں کو پہچانے میں مدد دے سکتی ہیں۔ ان کے خیال میں بھی یہ ایک بیماری ہے اور بہت عام ہے۔ ڈاکٹر لی کے مطابق ان کے پاس آنے والے خودپسندی کا شکار بہت سے مریض اپنے آپ کو ڈپریشن کا مریض سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق ایسے مریضوں پر ڈپریشن کی دوائی بالکل اثر نہیں کرتی۔
سین ڈیایگو یونیورسٹی میں سائیکالوجی کے پروفیسر جین ٹوینگ کا کہنا ہے کہ یہ بیماری پھیل رہی ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب ’خودپسندی کی وبا‘ میں لکھا کہ امریکی طالب علم جتنا اب خودپسندی کا شکار ہے اتنا پہلے کبھی نہیں تھا۔ انھوں نے کہا حالیہ دہائیوں میں اپنے آپ کو ’خودپسند‘ کہنے والے اور مقصد کے حصول میں اور قائدانہ صلاحیتوں میں اپنے آپ کو اوسط سے بہتر سمجھنے والے طالب علموں کی تعداد میں بڑا اضافہ ہوا ہے۔
ایچ جی ٹیوڈر اپنے آپ کو برطانیہ کے بڑے خودپسندوں میں شمار کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں کم عمری سے معلوم تھا کہ وہ خودپسند ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں لوگوں کا فائدہ اٹھانے میں مزہ آتا تھا۔ ٹیوڈر نے بتایا کہ انہیں پہلی بار یونیورسٹی میں سائیکالوجی کی طالب علم ان کی گرل فرینڈ نے بتایا کہ وہ ’نرگسیت کے مریض‘ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انھیں لوگوں کو پہنچے والی تکلیف کا احساس نہیں ہوا کیونکہ ان کا اپنا الو تو سیدھا ہو رہا تھا۔
اب اسی بیماری کو انہوں نے کمائی کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ انہوں نے اس موضوع پر کئی کتابیں لکھی ہیں اور وہ آن لائن مشاورت بھی کرتے ہیں جس کی فیس 70 ڈالر ہے۔ اس مشاورت میں وہ خودپسندی کا شکار لوگوں کے ساتھ رہنے والے افراد کی مدد کرتے ہیں اور انہیں بتاتے ہیں کہ وہ کیسے اپنے ساتھیوں سے نمٹ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کا بڑھتا ہوا کاروبار اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ مسئلہ بڑھ رہا ہے۔
گزشتہ تیس برسوں میں یونیورسٹیوں میں خودپسندی کم ہوئی ہے۔ یونیورسٹی آف الینائے میں پروفیسر برینٹ رابرٹس نے اپنی تحقیق کے لیے تین مختلف یونیورسٹیوں سے اعداد و شمار حاصل کیے۔ انھوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ خودپسندی کی تعریف کرنا آسان لیکن اس کا تعین کرنا مشکل ہے اور یہ کہ سوشل میڈیا اس کے بڑھنے کی ایک وجہ ہے۔
عموماً ازدواج کو ایسے نرگسیت پسند شخص کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چاہے شوہر ہو یا بیوی۔ ایسا شخص دوسرے کو اس نہج پہ لے آتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو دنیا کا ناکارہ ترین اور ناکام ترین شخص تصور کرنے لگتا ہے۔ اور نفسیاتی مریض بن جاتا ہے۔ وہ کچھ بھی کر لے اس کی توقعات پہ پورا نہیں اتر سکتا، اسے مطمئن یا خوش نہیں کر سکتا کیونکہ خودپسند شخص اپنی عادت سے مجبور ہوتا ہے، وہ دوسرے کی کوششوں، اس کی اچھائیوں اور خوبیوں کو سراہ ہی نہیں سکتا۔ وہ دوسرے کے ہر کام میں منفی پہلو نکال کر اس پہ تنقید کرتا رہتا ہے۔ اور اکثر لوگ انہیں سمجھ ہی نہیں پاتے اور نتیجتاً یا تو علیحدگی اختیار کر لیتے ہیں یا خود ذہنی مریض بن جاتے ہیں۔
اس کی بہترین مثال ایک لطیفہ بھی ہے۔ ایک شخص نے ناشتہ مانگا تو بیوی نے پراٹھے کے ساتھ آملیٹ بنا کر دیا۔ وہ شخص بولا: میں نے تو فرائی انڈہ کھانا تھا۔ دوسرے دن بیوی نے فرائی بنا کر دیا تو کہنے لگا: مجھے تو ابلا ہوا انڈہ کھانا تھا۔ تیسرے دن بیوی نے آملیٹ، فرائی اور ابلا ہوا تینوں انڈے بنا کر سامنے رکھے تو بولا: میں نے تو انڈہ کھانا ہی نہیں تھا۔
قریبی رشتے کی بناء پہ اکثر اوقات لوگ اپنے شوہر یا بیوی سے لاتعلق بھی نہیں رہ سکتے۔ لیکن جب بھی وہ کسی سلسلے میں ان سے بات کرنے کی جسارت کرتے ہیں خودپسند انسان انہیں ذلیل کرنے لگتا ہے۔ گالیاں بکنا اور ہاتھ اٹھانا اس کے نزدیک بالکل جائز فعل ہوتا ہے کیونکہ اس کے خیال میں دوسرے کی غلطی ہوتی ہے جو کہ ناقابل برداشت ہوتی ہے اور اسے سزا دینے کا پورا اختیار اور حق حاصل ہوتا ہے۔ عموماً ایسا شخص دوسروں کے سامنے بے حد نرم خو، سوشل اور حلیم بن کر رہتا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ مگر وہ یہ لبادہ زیادہ دیر تک نہیں اوڑھ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ خودپسند شخص تنہائی پسند ہوتا ہے لوگوں میں گھلتا ملتا نہیں ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ اس کے شکار سے، جو کہ ذہنی مریض ہے، کیسے بچا جائے کیونکہ اس کے معاملے میں خاموشی بہترین حکمت عملی نہیں ہوتی۔ کیونکہ وہ جب تک اگلے بندے کو اس قدر زچ نہ کر لیں کہ وہ بولنے پہ مجبور ہو جائے بخشتے نہیں ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کوئی انسان دوسرے سے اس لیے برتر نہیں ہو جاتا کہ وہ امیر، خوبصورت، ذہین، صاحب اقتدار و اختیار یا کسی خاص مقام کا رہائشی ہے۔ پھر اس کی اس حکمت عملی کا توڑ کرنا ہو گا جو وہ دوسروں کو اپنے اشاروں پر چلانے کے لیے اختیار کرتا ہے۔ ان کے جھوٹ اور حقیقت کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے پر آخرکار دوسرے فرد کو اپنا راستہ الگ کرنا ہی پڑتا ہے جس کےلیے ہمت درکار ہوتی ہے۔
ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ان سے ڈیل کرنے کے لیے کچھ حدود و قیود طے کر لی جائیں اور ان کو اس سے آگے نہ بڑھنے دیا جائے۔ اس صورت میں ذہنی طور پر اپنے تعلق میں تبدیلی کے لیے بھی تیار رہا جائے کیونکہ خودپرست بہت جلدی اپنے احساسات اور جذبات کو بدل لیتے ہیں۔ جونہی انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اگلا بندہ ان کے کسی کام کا نہیں وہ فوراً اپنا تعلق بدل لیں گے۔ مثلاً اگر بیوی کسی وجہ سے بیمار پڑ جائے، ان کے گھریلو کام یا خواہشات کی تکمیل کے قابل نہ رہے تو شوہر اسے چھوڑنے میں لمحہ بھی نہیں لگاتا۔ ایسے ہی اگر شوہر میں کوئی معذوری پیدا ہو جائے یا اس کے معاشی حالات خراب ہو جائیں تو بیوی اس سے علیحدگی اختیار کر لیتی ہے۔
اس رشتے میں تو انسان کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ خودپسند شخص سے الگ ہو کر اس کے ظلم سے بچ سکتا ہے۔اصل مسئلہ تو تب ہوتا ہے جب بہن بھائیوں اور والدین میں سے کوئی اس کا مریض ہو۔ اس صورت میں بہتری اسی میں ہے کہ دوسرے اپنے آپ کو مریض کی مرضی کے مطابق ڈھال لیں۔ یا کم از کم ایسا ظاہر کریں کہ وہ ہر کام اس سے پوچھ کر اور اس کی پسند کے مطابق کرتے ہیں اور یہ سوچ لیں کہ اللہ تعالٰی نے اس مریض کو ان کے لیے ایک آزمائش بنا کر ان پہ مسلط کیا ہے۔ دوسری صورت میں زندگی جہنم بن سکتی ہے۔