حمیراعلیم
منکی پاکس ایک ایسا وائرس ہے جو جنگلی جانوروں خصوصاً زمین کھودنے والے چوہوں اور لنگوروں میں پایا جاتا ہے اور اکثر ان سے انسانوں کو بھی لگ جاتا ہے۔ اس وائرس کے زیادہ تر کیسز ماضی میں افریقہ کے وسطی اور مشرقی ممالک میں پائے جاتے تھے جہاں یہ بہت تیزی سے پھیلتا تھا۔ پہلی مرتبہ اس بیماری کی شناخت 1958 میں اس وقت ہوئی تھی جب ایک تحقیق کے دوران کچھ سائنسدانوں کو بندروں کے جسم پر ‘پاکس’ یعنی دانے نظر آئے تھے۔ اسی لیے اس بیماری کا نام ‘منکی پاکس’ رکھ دیا گیا تھا۔
انسانوں میں اس کا پہلا کیس 1970 میں افریقی ملک کانگو میں ایک 9 سالہ بچہ تھا۔
منکی پاکس وائرس جلد، آنکھوں، ناک یا منہ کے ذریعے جسم میں داخل ہوتا ہے۔ یہ کسی متاثرہ جانور کے کاٹنے سے یا اس کے خون، جسمانی رطوبتوں یا کھال کو چھونے سے پھیل سکتا ہے۔ منکی پاکس کسی متاثرہ جانور کا گوشت کھانے سے بھی ہو سکتا ہے۔ منکی پاکس کے انفیکشن میں بخار، سر درد، سوجن، کمر درد، پٹھوں میں درد اور عام سستی شامل ہیں۔ بخار کے وقت انتہائی خارش والے پیپ بھرے دانے پیدا ہو سکتے ہیں جو اکثر چہرے پر شروع ہو کر جسم کے دوسرے حصوں میں پھیل جاتے ہیں۔ انفیکشن عام طور پر 14 سے 21 دن تک رہتا ہے۔
اس وائرس سے زیادہ بیمار ہو جانے والوں لوگوں کو اکثر شدید خارش بھی محسوس ہوتی ہے اور جسم کے مختلف حصوں پر دانے نکل آتے ہیں۔ اس کے اثرات پانچ سے تین ہفتوں میں نظر آتے ہیں اور عام طور پر اس سے متاثرہ افراد دو سے چار ہفتوں کے درمیان بغیر ہسپتال منتقل ہوئے صحتیاب ہو جاتے ہیں۔
منکی پاکس کے بارے میں ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ یہ وائرس 10 میں سے ایک فرد کے لیے جان لیوا ثابت ہوتا ہے اور یہ بچوں پر زیادہ اثرانداز ہوتا ہے۔
اس سے متاثر ہونے والوں کو اکثر ‘سمال پاکس’ یا ‘چکن پاکس’ کے خلاف کام کرنے والی ادویات دی جاتی ہیں۔ جبکہ اس بیماری سے بچاؤ اور اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ویکسین بھی بنائی جا رہی ہے۔
یورپین سینٹر فار ڈیزیز پریوینشن اینڈ کنٹرول نے دنیا بھر کے ماہرین کو یہ مشورہ دیا کہ منکی پاکس سے متاثرہ افراد کو آئسولیشن میں رکھا جائے اور زیادہ متاثرہ افراد کو ‘سمال پاکس’ کی ادویات دی جائیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق تقریباً ایک درجن افریقی ممالک میں اس وائرس کے ہزاروں کیسز ہر سال رپورٹ ہوتے ہیں اور ان میں سے تقریباً 6000 کا کانگو اور 3000 کا تعلق نائیجیریا سے ہوتا ہے۔
اس کے کچھ کیسز امریکہ اور برطانیہ میں بھی پائے گئے ہیں اور ان کیسز کی تشخیص ان افراد میں ہوتی تھی جو افریقی ممالک کا سفر کرتے تھے اور یا ان علاقوں سے تعلق رکھنے والے جانوروں سے رابطے میں آئے ہوتے تھے۔ 2003 میں چھ امریکی ریاستوں میں منکی وائرس کے 47 کیسز رپورٹ ہوئے تھے اور انہیں یہ وائرس ان کتوں سے لگا تھا جنہیں گھانا سے لائے گئے جانوروں کے ساتھ باندھا گیا تھا۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ یہ بیماری ان افراد کو بھی لگتی ہوئی نظر آ رہی ہے جنہوں نے کبھی افریقہ کا سفر نہیں کیا۔ یورپ میں یہ کیسز برطانیہ، اٹلی، پرتگال، سپین اور سویڈن میں پائے گئے ہیں۔
منکی پاکس کو ابھی تک جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماری کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا ہے لیکن برطانیہ میں آج تک پائے جانے والے زیادہ تر کیسز ہم جنس پرست ہیں۔ وائرس کے انفیکشن کے زیادہ تر علامات ہلکی ہوتی ہیں۔ یہ بعض اوقات چکن پاکس کی طرح ہوتی ہیں اور چند ہفتوں میں خود ہی بہتر ہو جاتی ہیں۔ تاہم، منکی پاکس بعض اوقات زیادہ سنگین ہو سکتا ہے کیونکہ مغربی افریقہ میں منکی پاکس سے موت کے واقعات سامنے آئے ہیں۔