شوق کا کوئی مول نہیں: کتا بننے کے شوقین جاپانی نے اپنا شوق کیسے پورا کیا؟
حمیرا علیم
گوگل پہ دنیا بھر سے اکثر حیران کن خبریں ملتی ہیں جن میں سے کچھ مثبت اور کچھ منفی ہوتی ہیں۔ ایسی ہی ایک خبر تھی کہ جاپان سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے اپنا دیرینہ خواب پورا کرنے کے لیے 31 لاکھ روپے کی خطیر رقم خرچ کی اور فلموں و اشتہارات کیلئے ملبوسات تیار کرنے والی ایجنسی سے رابطہ کیا۔ جاپانی شخص نے زیپٹ نامی ایجنسی کی مدد سے کتے کا لباس تیار کروایا جس کی تیاری میں کمپنی کو ایک ماہ سے زائد عرصہ لگا لیکن لباس ایسا کہ پہنے کے بعد جاپانی شہری حقیقت میں کتا لگنے لگا۔
اس شہری کی ایک ویڈیو یوٹیوب پر پوسٹ کی گئی ہے جس میں اس نے یہ لباس پہن رکھا ہوتا ہے۔ اس لباس کو پہن کر ویڈیو میں وہ ہوبہو کتے جیسا نظر آ رہا ہوتا ہے۔ اگر یہ نہ بتایا جائے کہ یہ کوئی آدمی ہے جس نے کتے کا لباس پہن رکھا ہے تو کوئی اسے پہچان ہی نہ پائے۔ جاپانی ٹوئٹر صارف نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے تصاویر شیئر کی ہیں جس میں وہ کتے کی خاص بریڈ کولی کا روپ دھارے نظر آ رہے ہیں۔
جاپانی نیوز آوٹلیٹ نیوز۔میناوی (news.mynavi) نے ایک انٹرویو میں جب ان سے سوال کیا کہ آپ نے جانور کی طرح نظر آنے کیلئے کتوں کی خاص بریڈ کولی کا ہی انتخاب کیوں کیا؟ تو ان کا کہنا تھا یہ ان کا پسندیدہ جانور ہے اور وہ ایک ایسا ماڈل پیش کرنا چاہتے تھے جو حقیقی نظر آئے کیونکہ بڑے بالوں والے کتے انسانی خدوخال کو ڈھانپ لیتے ہیں۔
ان سے سوال کیا گیا کہ وہ اس لباس میں کس طرح اپنے جسم کو حرکت میں رکھتے ہیں تو ان کا کہنا تھا اس میں تھوڑی مشکل ہوتی ہے لیکن آپ جسم کو حرکت میں رکھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر اس لباس میں اپنے جسم کو زیادہ حرکت میں رکھیں گے تو کتے جیسے نہیں لگیں گے۔
مغربی ممالک میں یہ فیشن زور پکڑتا جا رہا ہے کہ انسان کتے اور بلی جیسا بننے کے لیے لاکھوں خرچ کر رہے ہیں۔ نیشنل جیوگرافی کے پروگرام "ٹیبو” میں ایسے لوگوں کو دکھایا گیا ہے جو اپنے پارٹنرز کے ساتھ بطور کتا یا بلی رہتے ہیں۔انہی کی طرح چاروں ٹانگوں اور ہاتھوں پہ چلتے ہیں، گلے میں پٹہ ڈالے مالک کے اشارے پہ ناچتے ہیں۔ کچھ ان جیسا لباس استعمال کرتے ہیں تو کچھ حد سے گزر جاتے ہیں اور کاسمیٹک سرجری ہی کروا لیتے ہیں۔
اللہ تعالٰی نے انسان کو اشرف المخلوقات اور بہترین صورت پہ بنایا مگر ہم انسان جانور بننے کے لیے کوشاں ہیں۔ اخلاقی طور پر تو ہم جانوروں سے بھی بدتر ہیں۔ جنگل کا بھی کوئی قانون ہوتا ہے مگر انسانی دنیا تو بالکل ہی لاقانونیت کا شکار ہو چکی ہے، اب ہم جسمانی طور پہ بھی جانور ہی نظر آنا چاہتے ہیں۔
ویسے یہ چونچلے انہی ممالک کے رہائشیوں کو سوجھتے ہیں جو ترقی یافتہ ہیں اور اپنے شہریوں کو بنیادی سہولیات مہیا کرتے ہیں۔ ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک کے شہری بیچارے تو جسم و روح کا رشتہ برقرار رکھنے کی جدوجہد میں ہی جان سے گزر جاتے ہیں۔ ایسے خناس ہمارے دماغ میں سما سکتے ہیں نہ انہیں تعبیر دینے کے لیے ہمارے پاس وسائل ہوتے ہیں۔