ہمارے معاشرے کو خواجہ سراؤں سے مسئلہ کیا ہے؟
سدرہ ایان
پچھلے دِنوں ایک ورک شاپ میں دو خواجہ سراؤں سے میری ملاقات ہو گئی پھر جب ہم کھانا کھانے بیٹھ گئے تو میں نے دیکھا کہ ہر ٹیبل پر پانچ پانچ خواتین، ایک ٹیبل پر میرے مرد اور خواتین کولیگ جبکہ ایک ٹیبل پر وہ خواجہ سرا اکیلے بیٹھے ہوئے تھے۔ جیسے ہی میں ہال میں داخل ہوئی تو انھوں نے مجھے خوشدلی سے اپنے ٹیبل پر کھانے کی دعوت دی۔ میں بھی جا کر ان کے پاس بیٹھ گئی۔
کچھ دیر بعد میں نے محسوس کیا کہ اردگرد کے لوگ مجھ پر ہنس رہے تھے۔ میں نے ان کو نظرانداز کیا جبکہ میں نے ان خواجہ سراؤں کو نظر میں رکھا کیونکہ میں جاننا چاہ رہی تھی کہ آخر ان میں ایسا کیا ہے کہ دوسرے لوگ ان پر ہنستے ہیں۔
انھوں نے کھانے پر تبصرے کیے اور جب وہ اٹھنے لگے تو دونوں خواجہ سراؤں نے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر دعا دی۔ پھر میں نے اردگرد مرد حضرات اور خواتین کو بھی ایک نظر دیکھا؛ مجھے خواتین، مرد اور خواجہ سراؤں میں فرق ضرور نظر آیا۔ میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ ہم پہ ہنس رہے تھے اور باتیں کر رہے تھے۔ جبکہ وہ دو خواجہ سرا کھانے کے اچھے ذائقے پر تبصرے کرتے رہے اور پھر جس جس پروگرام میں انھوں نے اچھا کھانا کھایا تھا اس پر تبصرے کیے۔ پھر مجھ سے پوچھا میرے کام کے بارے میں تو جب میں نے اپنے چینل اور اپنے کام کے بارے میں بتایا تو وہ ہمارے چینل کے کچھ پرانے پروڈیوسرز کو جانتے تھے، انھوں نے اچھے الفاظ میں ان کو یاد کیا۔ اور یہی فرق تھا جو مجھے ان میں واضح نظر آیا۔
بعد میں، میں نے ان کولیگز سے پوچھا آپ لوگ مجھ پر ہنس کیوں رہے تھے تو ان میں سے ایک کہنے لگا کہ یہ ٹھیک ٹھاک مرد ہیں باقی تمھاری مرضی۔ میں نے کہا ٹھیک ٹھاک مرد تو آپ بھی ہو، آپ سے بات کرتے ہوئے کوئی بھی مجھ پر ہنس نہیں رہا تو ان میں سے ایک نے کہا کہ ہم جو ہیں وہ ہی ہیں، کم سے کم ہم نے اپنی شناخت تو نہیں چھپائی ہوئی نا! تب میں خاموش رہی لیکن ان کی بات میرے ذہن میں بیٹھ گئی۔
خواجہ سراؤں کی شناخت کے حوالے سے بتاتی چلوں کہ قدرتی طور پر خواجہ سرا جسمانی طور پر ایک عام انسان ہی کی طرح ہوتے ہیں۔ یا تو وہ جسمانی طور پر ٹھیک ٹھاک مرد ہی ہوتے ہیں یا ٹھیک ٹھاک عورت۔ اور بعض دفعہ ہم راستے میں کوئی ایسا بندہ دیکھ لیتے ہیں جو شکل سے تو مرد نظر آتا ہے لیکن اُس کی آواز نسوانی ہوتی ہے، اس نے کپڑے بھی مردوں کے پہنے ہوئے ہوتے ہیں، بال بھی چھوٹے چھوٹے بنائے ہوئے ہوتے ہیں لیکن صرف آواز ان کی عورتوں جیسی ہوتی ہے۔
دوسرے اکثر و بیشتر ہمیں ایسے خواجہ سرا نظر آتے ہیں جو ظاہری طور پر خواتین جیسے ہوتے ہیں، میک اپ بھی کیا ہوا ہوتا ہے، بال بھی لمبے لمبے ہوتے ہیں، کپڑے بھی عورتوں والے پہنے ہوتے ہیں لیکن ان کی آواز مردوں جیسی ہوتی ہے۔ یعنی خواجہ سراؤں میں بھی ایک نر ہوتا ہے جو خود کو عورت سمجھتا ہے، ایک مادہ ہوتی ہے جو خود کو مرد سمجھتی ہے۔ ان کے لئے جو ایک خاص اصطلاح استعمال کی جاتی ہے وہ ہے ”ٹرانس مین” یا ”ٹرانس وومن!” یعنی "ٹرانس مین وہ ہوتا ہے جو ظاہری طور پر مرد بنا ہوا ہوتا ہے جبکہ "ٹرانس ومن وہ ہوتی ہے جو ظاہری طور پر عورت بنی ہوئی ہوتی ہے۔
یہاں میں مزید وضاحت کرتی چلوں کہ کچھ خواجہ سرا کہتے ہیں کہ جب وہ شناختی کارڈ بنوانے جاتے ہیں تو ان سے کہا جاتا ہے کہ جا کر میڈیکل ٹیسٹ لے کر آئے کہ آپ ہو کیا دراصل! جیسا کہ میں نے بتایا عام طور پر یہ جسمانی لحاظ سے ٹھیک ٹھاک مرد یا عورت ہوتے ہیں لیکن ان کی اندرونی احساسات مختلف ہوتی ہے۔
ٹرانس مین جسمانی طور عورت ہی ہوتا ہے لیکن اس کے اندرونی احساسات مردوں والے ہوتے ہیں، اس کی سوچ مردوں والی ہوتی ہے، اس کا ضمیر، اس کی سوچ اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ اسے کوئی عورت کہے کیوںکہ وہ سمجھتا ہے کہ جینڈر کا تعلق آپ کے جسم سے نہیں بلکہ آپ کی سوچ سے ہوتا ہے۔
اس طرح ٹرانس وومِن جسمانی طور مرد ہی ہوتی ہے لیکن اُس کی سوچ، اس کے احساسات عورتوں والے ہوتے ہیں۔ وہ میک اپ، لمبے بال، عورتوں کے کپڑوں کی طرف ذیادہ ایٹریکٹ ہوتے ہیں۔ میں بھی اس بات سے متفق ہوں کہ جینڈر کا تعلق سیکس سے نہیں ہوتا۔ سیکس تو وہ بنیادی جسمانی ساخت ہے جو خدا سب کو دیتا ہے۔ اور جینڈر معاشرتی سوچ کی بنیاد پر آپ پر لیبل کی طرح چپکائی جاتی ہے۔ جیسے کہ اگر مرد ہے تو باہر کے کام کرے گا، پیسے کمائے گا، اگر عورت ہے تو گھر کے کام کرے گی، بچوں کو سنبھالے گی اور اس چیز کو ہم نے اتنا دل سے قبول کیا ہے کہ یہ ایک روایت بن چکی ہے۔
اس طرح یہاں بھی ایک سوچ ہی کی بات ہے کہ اگر کوئی بندہ مرد ہے لیکن اس کے احساسات، خواہشات، ناز و انداز عورتوں والے ہیں، اگر اس کی سوچ اسے کہتی ہے کہ تم عورت ہو تو وہ کیسے اپنی سوچ کے خلاف جا سکتا ہے؟ جیسے اگر میں اپنی مثال دوں۔ میں جسمانی طور لڑکی ہوں اور میری سوچ عورتوں والی ہے، میرے احساسات جذبات عورتوں والے ہیں تبھی تو میں خود کو عورت ہی کہتی ہوں۔ جیسے میں اپنے سوچ کو فالو کرتی ہوں ویسے ہی وہ خواجہ سرا بھی اپنے جسم کے بجائے سوچ کو فالو کرتے ہیں۔ لیکن میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ معاشرے کو خواجہ سراؤں سے مسئلہ کیا ہے آخر؟ اگر کوئی کہتا ہے کہ وہ اپنی شخصیت کو چھپاتے ہیں، عورت ہو کر مرد بنتی ہے یا مرد ہو کر عورت بنتا ہے تو تب بھی کوئی مسئلہ نہیں یہ ان کا بنیادی حق ہے؟
ہمارے مرد ہاتھوں میں چوڑی نہیں پہننے لگے کیا؟ کانوں میں بالی، گلے میں ہار، بڑے بال، بڑے ناخن، ہونٹوں پر لپ گلوز، چہرے پر کریم نہیں لگاتے کیا؟ ان پر کسی نے سوال اٹھایا اب تک؟ اور دوسری طرف ہماری لڑکیوں کو دیکھو! لڑکوں جتنے بال، ہاتھ میں دھاگے، لڑکوں والی گھڑی، لڑکوں جیسے کپڑے، لڑکوں والے سٹائلز، ان پر کسی نے سوال اٹھایا؟ پھر خواجہ سرا پر ہی کیوں سوال اٹھا جاتا ہے؟ کون سا جان بوجھ کر وہ یہ راستہ اختیار کرتے ہیں؟ اور اگر جان بوجھ کر بھی اختیار کرتے تو ہمیں کوئی حق نہیں کہ ان پر سوال اٹھائیں۔
اسلام آباد کے نواح میں بری امام سرکار کی جھولی میں چھوٹے سے محلے "پری باغ” سے تعلق رکھنے والے ٹرانس ومن ندیم کشش کا کہنا ہے کہ وہ جسمانی طور لڑکا پیدا ہوا, بچپن ہی سے وہ بہت شرمیلا سا تھا, جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا گیا اس میں شرم و حیا بڑھنے لگی, وہ اکثر اوقات گھر کے کاموں میں ماں کا ہاتھ بٹانے لگا اور اس کے رجحانات وقت کے ساتھ ساتھ اور بھی عورتوں کی طرف ہونے لگے۔ بظاہر تھا تو وہ لڑکا لیکن وہ خود کو عورت محسوس کرنے لگا تھا۔ گھر والوں کے لاکھ سمجھانے کے باوجود بھی جب وہ اپنی بات پر ڈٹا رہا کہ اگر وہ خود کو عورت محسوس کرتا ہے تو عورت سمجھتا بھی ہے۔ پھر جب گھر والے اس کو اور وہ اپنے گھر والوں کو قائل نہیں کر سکا تو انھوں نے اسے گھر سے نکال دیا۔ پر اس نے ہمت نہ ہاری، اپنی برادری کے لئے سسٹینیبل ایسوسی ایشن فار فنڈامنٹل رائٹس کے نام سے تنظیم بنائی، پاکستان کی پہلی ٹرانس ریڈیو براڈکاسٹر بنی اور 2018 میں عمران خان و شاہد خاقان عباسی کے خلاف الیکشن بھی لڑا جبکہ اب بھی گروگری کلچر سے دلبرداشتہ اپنی ٹرانسجینڈر کمیونٹی کے لئے سوشل ایکٹیویٹیز کرتی ہے۔
تو بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اگر کسی کو ان سے یہ مسئلہ ہے تو مرد بھی تمام عورتوں والے سٹائلز کرتے رہتے ہیں، عورت بھی مرد جیسی دِکھنے کی بھرپور کوشش کرتی ہے تو پھر نشانہ خواجہ سرا ہی کو کیوں بنایا جاتا ہے؟
ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے جو اکثر سننے میں آتی ہے کہ کچھ لوگ خواجہ سراؤں کے خلاف اس لیے ہیں کہ یہ پیسوں کے لیے کچھ بھی کرتے ہیں حتی کہ جسم بیچتے ہیں۔ سچ میں؟ بس یہی وجہ ہے ان سے نفرت کرنے کی؟ ذرا اپنے ضمیر کو جگا کر سوچ لیں کہ طوائف کس بلا کا نام ہے؟ طوائف کیا ہے اور طوائف کے پاس جانے والے مرد کیا ہیں؟ یہاں پر بھی خواجہ سراؤں میں اور ان سے نفرت کرنے والے لوگوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ بھیک مانگتے ہیں تو کیا ہمارے ہاں مرد بھیک نہیں مانگتے ہیں؟ عورتیں بھی تو مانگتی ہیں، پھر خواجہ سراؤں کے بھیک مانگنے پر سوال کیوں؟
اب میں آتی ہوں اصل واقعے کی طرف جس کے لیے میں نے یہ ساری باتیں لکھیں اور چونکہ میں خود ایک غیرجانبدار صحافیہ ہوں تو مجھے ہرگز زیب نہیں دے گا کہ میں یک طرفہ رائے دوں۔
پچھلے دِنوں مردان میں ایک اور ٹرانس وومن جو کہ کوکونٹ نام سے جانی جاتی تھی، اس کو گولی مار کر قتل کیا گیا جبکہ اس کی دوسری ساتھی زخمی ہو گئی۔ واضح رہے کہ یہ پچھلے دو ہفتوں میں تیسری ٹرانس تھی جس کو قتل کیا گیا اور پھر اس پر ہر کسی نے اپنی تحقیق کے مطابق رائے دی۔
اس کے بارے میں جو میں نے معلومات اکٹھی کرنے کی کوشش کیں تو معلوم ہوا کہ اس نے کسی سے تین لاکھ روپے لیے تھے یہ وعدہ کر کے کہ وہ کسی اور کے لیے کام نہیں کرے گی لیکن اس نے پھر بھی کام کیا اور ایسے وہ ماری گئی۔
میں اب تک جتنے بھی ٹرانس جینڈرز سے ملی ہوں سب یہی کہتے ہیں کہ ہمیں ہمارے حقوق نہیں دیے جا رہے، ہمیں کوئی عزت سے جینے نہیں دے رہا، ہمارا ریپ ہوتا ہے، ہمیں قومی شناخت نہیں ملتی تو انھیں میں کہنا چاہتی ہوں کہ پہلے تو ہر انسان کی عزت اس کے اپنے ہاتھوں میں ہی ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ پاکستان میں ہر اس خواجہ سرا کو اس کے حقوق حاصل ہیں جس نے خود کو رجسٹر کیا ہوا ہے۔ جن لوگوں نے خوجہ سرا بننا پیشہ بنا رکھا ہے تو وہ اپنا کاروبار چلائیں، کس چیز کے حقوق مانگ رہے ہیں وہ؟
رجسٹریشن کی بات آئے تو وہ خود کو خواجہ سرا رجسٹر نہیں کرتے اور جو ہیں ہی خواجہ سرا جو کہتے ہیں کہ ان کا ریپ ہوتا ہے، ان کو ہراساں کیا جاتا ہے، ان کی عزت نہیں کی جاتی تو اگر کسی عزت دار گھرانے سے کوئی عورت ناچ گانے کے لیے باہر نکلے اور مردوں کے بیچ تماشے کرے تو اس کی بھی عزت محفوظ نہیں رہے گی۔ اگر آپ خود عزت سے رہنا سیکھ لیں کوئی کام کاج شروع کریں تو سب سے زیادہ عزت آپ ہی کو ملے گی۔
پشاور سے تعلق رکھنے والی ٹرانس ومن پارو کی مثال لے لیں یا پشاور گھنٹہ گھر سے تعلق رکھنے والے ڈالر نامی نرانس مین کی مثال لے لیں جنھوں نے بوتیک بنایا، کپڑے سیتے ہیں اور عزت سے روٹی روزی کماتے ہیں۔ انھوں نے عزت سے جینا سیکھ لیا اور ہر کوئی خود سے بڑھ کر ان کو عزت دیتا ہے۔ یا پھر اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی کشش (ندیم) جو خود بھی جاب کرنے لگی اور پری باغ نام سے ایک گھر بنایا جس کے دروازے ان تمام ٹرانس جینڈرز کے لیے کھول دیے گئے جو کہ ناچ گانا چھوڑ کر نوکری کر کے عزت کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ ندیم کشش نے خواجہ سراؤں کو عزت بخش کر کہا کہ میں نے اپنے گھر کا نام اس لیے پری باغ رکھا کہ یہاں پریاں رہتی ہیں، وہ کہتی ہے کہ ان کے لیے خواجہ سرا پریاں ہی ہوتی ہیں اور اس خیال کو لے کر ندیم کشش نے اپنے گھر میں ایک چھوٹی سے پری بھی دیوار سے لٹکائی ہے۔ اور اس وقت کئی خواجہ سرا پری باغ میں رہتے ہیں اور وہ سب محنت مزدوری یا سرکاری نوکریاں کرتے ہیں۔
تو جو لوگ خود کو عزت دینے لگ جائیں معاشرہ خودبخود ان کو عزت دینے کے لیے جھک جاتا ہے۔ اگر کوئی انسان کسی سے پیسے لے کر جھوٹے وعدے کرتا ہے یا یہ جان کر بھی کہ یہ جگہ عزت والی نہیں مگر پھر بھی جاتا ہے، یہ جانتے ہوئے بھی اک کھٹن راستے پر چلتا ہے تو پاؤں میں کانٹے چھبنے لیے تیار رہیں لیکن پھر بھی ہر کسی کی اپنی اپنی سوچ ہوتی ہے جسے جو ٹھیک لگتا ہے وہی کرتا ہے۔
مختصراً یہ کہ ہر وہ برائی ہم سب میں موجود ہے جو ہم خواجہ سراؤں میں بتا کر ان پر ہنستے ہیں اور ان سے نفرت کرتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ ہم سوچیں کہ یہ تو نہ مرد ہیں اور نہ ہی عورت، ہم یہ کیوں نہ سوچیں کہ خدا نے ان کو دونوں صلاحیتیں دی ہوئی ہیں، وہ مرد بھی ہیں وہ عورت بھی ہیں۔ مگر بالآخر خواجہ سرا اشرف المخلوقات ہیں کیونکہ وہ انسان ہیں۔