دل مومن: عشق مجازی سے عشق حقیقی تک کا سفر
خالدہ نیاز
کہتے ہیں محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے۔ اور یہ ڈائیلاگ ہمیں اکثر و بیشتر ڈراموں اور فلموں میں سننے کو ملتا ہے، آج کل تو رئیل لائف میں بھی ایسے سین دیکھنے کو مل جاتے ہیں جو اس محاورے کو حقیقت کے قریب لے جاتے ہیں۔
بہت کم ایسا ہوتا ہے جب ایک انسان عشق مجازی سے عشق حقیقی تک پہنچ جائے لیکن جب ایک انسان پہ اللہ مہربان ہو جاتا ہے تو اس کے دل میں اپنی محبت ڈال دیتا ہے، کچھ ایسا ہی ”دل مومن” میں مایا (مدیحہ امام) کے ساتھ بھی ہو جاتا ہے جسے اپنے استاد، ڈرامے کے مرکزی کردار مومن (فیصل قریشی) سے پیار ہو جاتا ہے اور وہ اس کو حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتی ہے یہاں تک کہ اس کی توجہ حاصل کرنے کے لیے اس کے ساتھ ساتھ اپنی عزت بھی تار تار کر دیتی ہے۔
مايا امير ماں باپ کی ایک خودسر بیٹی ہوتی ہے جس کو اپنے آپ پہ بہت مان ہوتا ہے، خودسر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ضدی بھی ہوتی ہے، اس کو لگتا ہے کہ لڑکے اس کے ایک اشارے کے منتظر ہوتے ہیں لیکن مومن اس کا استاد، جس کو جتنی زیادہ توجہ دیتی وہ اتنا ہی اس سے دور ہونے کی کوشش کرتا اور اسے اگنور کرتا، اور یہی بات مایا کو کھٹکھتی اور اسی بات نے اس کو مجبور کیا کہ اس نے ایک پلان کے ذریعے مومن پر ہراسانی کا الزام لگایا جس کے بعد مومن کی زندگی میں کئی نشیب و فراز آئے۔
مومن کو اپنی خالہ کی بیٹی عاشی (مومل شیخ) سے محبت ہوتی ہے اور عاشی بھی اس کو ٹوٹ کر چاہتی ہے، دونوں کی منگنی بھی ہو جاتی ہے اور شادی ہونے والی ہوتی ہے کہ اس دوران ڈرامے میں ایک ایسا موڑ آ جاتا ہے جو تمام کرداروں کی زندگی بدل دیتا ہے۔
مومن کے ساتھ اس کی بہن کی بھی شادی ہونے والی ہوتی ہے لیکن اس دوران مایا مومن پر ہراسانی کا الزام لگا دیتی ہے جس کے بعد مومن کو یونیورسٹی میں ہجوم مار مار کے لہولہان کر دیتا ہے، مومن کی موٹرسائیکل بھی توڑ دی جاتی ہے، یہ بات میڈیا کے ذریعے اتنی پھیل جاتی ہے کہ مومن کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا، مومن کی منگنی بھی ٹوٹ جاتی ہے اور اس کی بہن کا رشتہ بھی ٹوٹ جاتا ہے اور یوں شادی والا گھر ماتم میں بدل جاتا ہے، مومن سب کو یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے کہ جس طرح وہ سوچ رہے ہیں ایسا کچھ نہیں ہے لیکن کوئی بھی مومن کی بات پہ یقین نہیں کرتا، ایسے میں مومن کا والد یہ غم برداشت نہیں کر پاتا اور اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔
دوسری جانب جب مایا کو حالات کی سنگینی کا احساس ہوتا ہے تو وہ مومن کے پاس معافی مانگنے چلی جاتی ہے لیکن وہاں جا کر وہ جو کچھ دیکھتی ہے وہ اس کو مزید بے چین کر دیتی ہے کیونکہ وہاں مومن کے والد کی لاش پہ ماتم ہو رہا ہوتا ہے۔
مایا خود کو مومن اور اس کے والد کا گناہ گار سمجھنا شروع کر دیتی ہے اور بے چینی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ مومن گھر سے باہر وقت گزارنے لگتا ہے جبکہ اس کی ماں ہر وقت اس کے لیے دعائیں کرتی رہتی ہے، مومن خود بھی ایک دیندار انسان ہوتا ہے، وہ ہر وقت اللہ کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھائے ناکردہ گناہ کی معافی مانگتا رہتا ہے اور مایا سے اس کو شدید نفرت ہو جاتی ہے۔
آخرکار مایا کی ماں کو بھی پتہ چل جاتا ہے کہ اس کی بیٹی نے جھوٹا الزام لگایا ہے جس کے بعد وہ اس سے بہت خفا ہوتی ہے اور اس سے بات کرنا چھوڑ دیتی ہے اور یوں مایا اکیلی رہ جاتی ہے، ہر وقت مومن کو یاد کر کے روتی روتی اور بے چینی کا شکار رہتی ہے۔
مایا اور مومن کے علاوہ ایک اور کردار بھی ہوتا ہے، گوہر (گوہر رشید)، جو مایا کو دل و جان سے چاہتا ہے اور اسے پانے کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے اور وہ مومن کو نقصان پہنچانے کا موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتا، وہ چاہتا ہے کہ کسی بھی طرح مایا کو حاصل کر لے لیکن آخر تک کامیاب نہیں ہو پاتا۔
ایک دن مایا مومن کے گھر چلی جاتی ہے اور اس کی والدہ سے معافی مانگتی ہے، مایا کی دیوانگی دیکھ کر مومن کی ماں بھی دنگ رہ جاتی ہے اور اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتی، اگرچہ اس کو معلوم ہوتا ہے کہ اس نے مومن کو برباد کر دیا ہے۔
مایا نہ صرف معافی معانگتی ہے بلکہ وہ گھر جا کر ایک ویڈیو سوشل میڈیا پہ ڈال دیتی ہے جس میں وہ اپنی غلطی کا اعتراف کر لیتی ہے اور مومن پر لگائے گئے الزامات کو جھوٹا قرار دے دیتی ہے۔ دوسری جانب عاشی کے والدین اس کی شادی فخر نامی نوجوان کے ساتھ اجلت میں کر دیتے ہیں حالانکہ فخر ایک برا انسان ہوتا ہے۔
جب ساری دنیا کو مومن کی سچائی کا علم ہو جاتا ہے اور وہ اپنے گھر آ جاتا ہے تب اس کی دنیا اجڑ چکی ہوتی ہے یعنی عاشی کا نکاح ہو چکا ہوتا ہے۔ اس کے بعد مایا کی والدہ کا بھی انتقال ہو جاتا ہے جس سے وہ مزید ٹوٹ جاتی ہے اور بے سکونی اس کا مقدر بن جاتی ہے لیکن اسی گھڑی وہ اپنے رب کے سامنے جھک جاتی ہے اور وہ اس کے بعد زیادہ تر وقت جائے نماز پر گزارنا شروع کر دیتی ہے، تب اللہ تعالیٰ بھی اس پہ مہربان ہو جاتا ہے اور مومن کے گھر والوں کے دلوں میں اس کے لیے ہمدردی ڈال دیتا ہے، مومن کی ماں مومن کو مایا کو معاف کرنے کا کہتا ہے جبکہ اس کی بہن چاہتی ہے کہ مایا اس کی بھابھی بن جائے، جب مایا ملک چھوڑ کے جانے والی ہوتی ہے تب اس کی زندگی میں خوشی دستک دے دیتی ہے اور اس کی دلی خواہش، مومن سے نکاح، پوری ہو جاتی ہے لیکن مومن اس کو دل سے قبول نہیں کر پاتا تاہم مایا مومن کے گھر والوں کے دل میں اپنے لیے جگہ بنا لیتی ہے اور اس کو اللہ کی عبادت میں ایسا سکون ملنا شروع ہو جاتا ہے کہ وہ کسی اور بات کی پرواہ ہی کرنا چھوڑ دیتی ہے۔
مومن کو لگتا ہے کہ مایا محض دکھاوے کی خاطر عبادت میں مشغول رہتی ہے اس بات سے بے خبر کہ مایا پہ اللہ کا خاص کرم ہوا ہوتا ہے۔ مومن کے گھر میں خوشی دستک تب دیتی ہے جب اس کی بہن کی شادی ہو جاتی ہے اور عاشی کی طلاق ہو جاتی ہے۔
مایا مومن کی خوشی کی خاطر عاشی کو مومن کی دلہن بنا کے گھر لے آتی ہے، عاشی مایا کی دل سے قدر کرتی ہے اور اس کا بہت خیال رکھتی ہے لیکن مومن کی ساری توجہ عاشی کی جانب چلی جاتی ہے اور مایا کو بھول جاتا ہے، تب ایک رات وہ مایا کو طعنے دیتا ہے جس کے بعد مایا گھر چھوڑ کے چلی جاتی ہے لیکن مایا کے چلے جانے کے بعد مومن کا سکون چھن جاتا ہے، اگرچہ بظاہر وہ اس کے لیے پریشان نہیں ہوتا لیکن اندر ہی اندر مر چکا ہوتا ہے۔ وہ پاگلوں کی طرح مایا کو ڈھونڈنے لگتا ہے لیکن وہ نہیں مل پاتی تب اس کو احساس ہوتا ہے کہ مایا اس کے لیے کتنی خاص ہے اور وہ اس کے عشق میں اتنا پاگل ہو جاتا ہے کہ عاشی کو بھی نظر انداز کرنا شروع کر دیتا ہے۔
عاشی امید سے ہو جاتی ہے اور اس کی آنکھوں میں ویرانی چھا جاتی ہے کیونکہ اس کو بھی احساس ہو جاتا ہے کہ مومن اب اس کا نہیں رہا۔ ڈرامے کا اختتام عاشی کی موت پر ہوتا ہے جب وہ مومن کے بیٹے کو جنم دے کر دنیا سے رخصت ہو جاتی ہے، آخر میں مومن کو مایا مل جاتی ہے اور یوں مایا سے نفرت کرنے والا مومن مایا کا دیوانہ بن جاتا ہے لیکن مایا تب عشق مجازی سے عشق حقیقی پا چکی ہوتی ہے اور یوں اس کو وہ سب کچھ مل جاتا ہے جس کی وہ طلبگار ہوتی ہے۔
مجھے ذاتی طور پر یہ ڈرامہ اس لیے بھی اچھا لگا کیوں کہ اس میں یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کس طرح اللہ انسان کو راستہ دکھاتا ہے اور لوگوں کے دلوں میں اس کے لیے محبت ڈال دیتا ہے، اللہ کچھ بھی کر سکتا ہے، وہ ہمارا خالق و مالک ہے اور ناممکن کو صرف وہی ممکن بنا سکتا ہے۔
دوسری اہم بات اس میں یہ بتائی گئی کہ ایک انسان لوگوں کی نظر میں برا بھی ہو لیکن وہ اللہ کی نظر میں اچھا بن سکتا ہے، اپنے اعمال سے۔ ساس بہو کے جھگڑوں سے ہٹ کر یہ ڈرامہ یقیناً کافی لوگوں کو پسند آیا ہو گا اور مجھے لگتا ہے کہ ایسے مزید ڈرامے بنانے کی ضرورت ہے۔