خدا اور ماں کی ایک مشترکہ عادت: دونوں معاف کر دیتے ہیں!
مہرین خالد
میری امی استانی نہیں بن پائی تھیں کیونکہ چھٹی پاس تھیں، استانی بننے کے لے آٹھویں جماعت تک تعلیم لازمی تھی لیکن ہر کام بڑے سلیقے، خوش اسلوبی اور نفاست سے کرتی تھیں۔ وہ کہتی تھیں کہ اپنی بیٹیوں کو تعلیم کے زیور سے ایسے آراستہ کروں گی کہ کبھی تعلیم کا ارمان نہیں کریں گی اور نہ کبھی کسی کی محتاج ہوں گی۔
مجھے یاد ہے پانچویں جماعت میں جب میرا میتھس کا پیپر فیل ہوا تھا تو ہاتھ میں چپل لیے بیٹھی تھیں کہ میں تمھیں کہاں دیکھنا چاہتی ہوں اور تم پیپر فیل کر کے آئی ہو۔ ان کی پریشانی کا یہ عالم تھا کہ انھیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کس ٹیوشن والی کے پاس مجھے لے کر جائیں جہاں سے پڑھنے کے بعد میں فیل نہ ہوں کیونکہ میں اپنے گھر کی نالائق بچی تھی جس کو پڑھنا تو نہیں تھا لیکن پولیس انسپکٹر بننے کا بڑا شوق تھا۔ میرے اسی نالائق پن کو دیکھ کر امی بڑی پریشان ہوتی تھیں کہ بڑے ہو کر تمھارا کیا بنے گا۔ ٹیوشن رکھنے کے بعد ان کی پریشانی ختم تو نہ ہوئی البتہ کم ضرور ہوئی تھی۔
امی کپڑے بہت پیاری سیتی تھیں لیکن وہ یہ بات ہمیشہ کرتی تھیں "جب میں نہیں ہوں گی تو بہت ارمان کرو گے۔” اس لیے کپڑے سلائی کرنا مجھ سے سیکھ لو۔ اس بات کا افسوس تو کبھی نہیں رہے گا کہ کپڑے سلائی کرنا نہیں سیکھا ان سے ہاں اس بات کا ارمان ضرور رہے گا کہ وہ بالکل ٹھیک ہی کہتی تھیں کہ جب میں نہیں ہوں گی تو بہت ارمان کرو گے۔
میں امی کی سب سے چھوٹی بیٹی تھی شاید اسی لیے مجھے روتا دیکھ کر ان کا کلیجہ منہ کو آتا اور کہتی مہرینو رو مت مجھے بڑی تکلیف ہوتی ہے تمھارے رونے سے لیکن یہ بات شاید امی نہیں جانتی تھیں کہ مجھے دنیا کی سب سے بڑی تکلیف وہی دے کر جائیں گی۔
2 نومبر 2011 بروز بدھ جب سکول سے آ کر امی کو چارپائی پر بیمار لیٹے دیکھا تو زاروقطار رونے لگی کہ کہیں امی ہمیں چھوڑ کر تو نہیں چلی گئیں اور یہ بات سچ تھی کیونکہ اس دن نہ تو وہ ہمارا انتظار کر رہی تھیں نہ ہمارے لیے کھانا بنایا تھا اور نہ ہی ہمیں روتا دیکھ کر ان کا کلیجہ پھٹ رہا تھا۔ وہ آخری شام تھی جب مجھے یہ بات کھائے جا رہی تھی کہ آج امی کے دیدار کا آخری دن ہے اس کے بعد صرف تصویروں میں ہی ان کو دیکھ پاؤں گی۔ میں دنیا میں کہیں بھی چلی جاؤں کتنی ہی ترقی کر لوں امی کی کمی ہمیشہ رہے گی اور یہ خلا دنیا کا کوئی بھی انسان پورا نہیں کر سکتا ہے کیونکہ میں یہ ہنر جان گئی ہوں کہ رگوں میں بہتی اذیتوں کا غرور توڑ کر چہرے پر مسکراہٹ کیسے سجانی ہے۔ میں اس بات پر یقین رکھتی ہوں حج پر جانے کے بجائے کسی ضرورت مند کی ضرورت پوری کی جائے تو حج جتنا ثواب ملتا ہے لیکن اب میں چاہتی ہوں کہ حج پر جانے کا موقع ملا تو ضرور جاؤں گی کیونکہ میں نے سن رکھا ہے کہ خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑتے ہی جو دعا مانگی جائے رد نہیں ہوتی تو میں اپنی امی کا دیدار مانگوں گی۔
مجھے بڑا اختلاف ہے ان لوگوں سے جو کہتے ہیں کہ وقت ہر زخم کا مرہم ہے۔ وقت ہر زخم کا مرہم ہوتا تو شاید لوگ اپنے پیاروں کی یادوں کے سہارے زندگی نہ گزارتے۔ کہتے ہیں کہ جب ماں باپ نہ ہوں تو انسان یتیم ہو جاتا ہے۔ میں کہتی ہوں ماں نہ ہوں تو انسان یتیم اور دنیا کا غریب ترین انسان ہے۔ میں اپنی امی کو کبھی نہیں بتا پائی کہ میں ان سے کتنا پیار کرتی ہوں یا ان کے لیے کیا کرنا چاہتی ہوں لیکن ان کی یہ پریشانی کہ "بڑے ہو کر تمھارا کیا بنے گا” رائیگاں نہیں جانے دوں گی۔ یوں تو "مدر ڈے” یعنی ماں کا کوئی عالمی دن نہیں ہوتا بلکہ ہر روز ہی ماؤں کا دن ہوتا ہے اس بات کا احساس مجھے تب ہوا جب 2 نومبر 2011 کے بعد میں نے آج تک اپنی امی کو نہیں دیکھا۔