ڈاکٹر بننے سے انکاری 18 سالہ زینب اپنی جان لینے پر راضی ہو گئی
حمیرا علیم
گوگل نیوز فیڈ دیکھتے ہوئے ایک خبر پہ نظر پڑی 18 سال کی زینب نجی کالج نارووال میں ڈی فارمیسی فرسٹ ائیر کی طالبہ تھی۔ زینب فارماسسٹ نہیں بننا چاہتی تھی اور ڈپریشن کے باعث خودکشی کر لی۔ طالبہ کے والدین نے کسی بھی قسم کی قانونی کارروائی نہ کرانےکا فیصلہ کیا جس پر ضروری کارروائی کے بعد لاش ورثا کے حوالے کر دی گئی۔
اس خبر کے کئی افسوسناک پہلو ہیں۔ شاید یہ ایشیائی والدین کا المیہ ہے کہ اپنے جو خواب وہ خود پورے نہیں کر سکتے وہ اپنی اولاد پہ تھوپ دیتے ہیں۔ بناء سوچے سمجھے کہ اولاد کی اپنی بھی کوئی مرضی ہو سکتی ہے۔ اور اگر بچہ اپنی مرضی کیخلاف کچھ پڑھے گا تو شاید اتنی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکے جتنا کہ اپنی پسند کے مضامین پڑھ کے کر سکتا ہے۔
بچوں میں برداشت کا مادہ اتنا کم ہو چکا ہے کہ وہ اپنی پسند کیخلاف چھوٹی سی بات نہیں سہہ پاتے اور آخری حد تک پہنچ جاتے ہیں۔ کبھی موبائل میں بیلنس نہ ڈلوانے پہ، کبھی پسند کی شادی نہ ہونے پہ، کبھی رزلٹ خراب آنے پہ والدین سے ڈانٹ پڑنے پہ خودکشی کر لینا ایک معمولی عمل بن چکا ہے۔ اگر دو تین دہائیاں پیچھے چلے جائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ والدین نہ صرف بچوں کے مستقبل کے فیصلے خود کرتے تھے بلکہ ان کی شادیاں بھی اپنی مرضی سے کرواتے تھے اور کبھی کسی کو اعتراض نہیں ہوتا تھا نہ ہی کوئی خودکشی کرتا تھا۔ گھروں میں سکون تھا۔
بہ نسبت ماضی کے آج بے سکونی بھی ہے اور بےصبری بھی جس کا نتیجہ ڈپریشن کی صورت میں نکلتا ہے۔ ماضی میں بچے جسمانی مشقت والے کھیل کھیلتے تھے جس کی وجہ سے نہ صرف جسمانی طور پر بلکہ ذہنی طور پر بھی صحتمند رہتے تھے۔ آج انٹرنیٹ نے جسمانی و ذہنی صحت کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے ڈپریشن، ہارٹ اٹیک اور ذیابیطس جیسی بیماریوں کا شکار ہیں۔ ان سب سے نجات کیلئے والدین کو کچھ اقدامات کرنے ہوں گے۔
بچوں کیلئے اسکرین ٹائم مقرر کریں۔ ان کو ایسے کھیل کھلوائیں جو جسمانی طور پہ ایکٹیو رکھیں۔ اور سب سے اہم بات کہ ان کے ساتھ ایسا تعلق قائم کریں کہ وہ بلاجھجھک والدین سے کوئی بھی مسئلہ ڈسکس کر سکیں۔ انہیں یہ یقین ہو کہ والدین ہی وہ ہستیاں ہیں جو ان کے مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔ اور ان سے زیادہ کوئی مخلص نہیں۔
اور انہیں دین کی تعلیم دیں ۔تاکہ وہ اتنے ناامید نہ ہوں کہ خودکشی جیسا حرام فعل کرنے پہ مجبور ہو جائیں۔ تعلیمی اداروں میں بھی ایسے کونسلرز ہونے چاہئیں جو بچوں کی کونسلنگ کرنے کے ساتھ ساتھ والدین کو بھی ان کے بچے کے مسائل اور رجحانات سے آگاہ کرتے رہیں اور ان کی رہنمائی کریں۔ کہیں بچوں کی مانیے کہیں ان سے اپنی منوائیے۔
اگر والدین اپنی انا کو پس پشت ڈال کر بچوں کی بھلائی پیش نظر رکھیں تو شاید ایسے واقعات نہ ہوں۔ بچوں کو بھی چاہیے کہ کسی ایسے شخص سے اپنے دل کی بات کریں جو انہیں مشورہ دے سکے اور ان کی زندگی میں بہتری لا سکے نہ کہ خودکشی کر کے خود کو بھی ابدی جہنم میں ڈال لیں اور والدین کیلئے بھی پچھتاوے اور دکھ کا سبب بنیں۔