روزہ، عید اور ہماری دم توڑتی روایات۔۔ ”برخہ” سے روزہ کھلائی تک
ناہید جہانگیر
رمضان کے آخری ایام چل رہے ہیں جو مجھے کئی سال پہلے ماضی کے جھروکوں میں لے جاتے ہیں۔ یہ وہ دن ہوتے تھے جب دادی اماں خاص تیاریوں میں لگ جاتیں، اپنی بیٹیوں یعنی میری پھوپھیوں اور میری وہ چچی جس کا چچا کے ساتھ اس وقت صرف رشتہ طے ہوا تھا، ان کے لئے ”برخہ” لے کر جاتی تھیں۔
”برخہ” پشتو زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے حصہ، ”برخہ” میں ہر کوئی اپنی حیثیت کے مطابق سوٹ، جوتے، چوڑیاں، میدہ، سویاں، گھی چاول، پھل اور خاص کر مہندی لے کر جاتے ہیں۔
پاکستان کے کسی اور صوبے کا علم نہیں ہے لیکن خیبر پختونخوا میں رمضان کے آخری ایام میں کچھ خاص روایات ہیں جن میں ”برخہ”، روزہ کھلائی کے ساتھ ساتھ اپنے قریبی رشتہ داروں کو افطاری کرانا بھی شامل ہے۔ بہت سی ایسی روایات ہیں جن کو بچپن میں دیکھا تھا لیکن اب وہ شاید ختم یا پھر جدید ہو گئی ہیں۔
یاد ہے مجھے دادی اماں کے لئے عید کی صبح ان کے بھائی کے گھر سے ناشتہ بھی آتا تھا، سادہ سا ناشتہ ہوتا تھا جس میں سفید ابلے ہوئے چاول اور ساتھ میں دہی، گڑ کی چائے کا تھرماس، ابلے ہوئے انڈے اور ساتھ 4 یا 6 دیسی گھی کے پراٹے ہوتے تھے۔
لیکن یہ سب میں نے پھر کبھی چچی یا والدہ کے بھائی کے گھر سے آتا ہوا نہیں دیکھا۔ شاید یہ سب صرف دادی کے دور کے لوگ کرتے تھے، والدہ اور چچی کا زمانہ جدید ہو گیا تھا؛ سوٹ، جوتے، چوڑیاں، میدہ، سویاں، گھی چاول، پھل اور مہندی عید سے کچھ دن پہلے پہنچ جاتے تھے۔
اب تو لوگ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں نکاح کی تقریب کرتے ہیں یا اپنے داماد کو روزہ کھلائی کراتے ہیں جس میں انواع و اقسام کے کھانے شامل ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی لگتا ہے کہ یہ تو ثواب سے زیادہ اسراف ہو گیا ہے۔
تیزی سے ختم ہونے والی روایات میں ایک یہ روایت بھی تھی، 27ویں رمضان کو ہر گھر میں کچھ نا کچھ بنتا تھا اور پھر پورے محلے میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ اب بھی وہی رمضان ہے وہی 27واں روزہ بھی آتا ہے لیکن شاید لوگ اب وہ نہیں رہے۔ اگر کچھ بنایا بھی جاتا ہے تو گھروں تک محدود ہوتا ہے کسی کے گھر بھیجنا گوارا نہیں کرتے۔
پورا رمضان جس کے گھر جو بھی بنتا تھا اس میں پڑوسی کا حصہ ہوتا تھا اور ہر کوئی ایک دوسرے کے گھر سالن یا جو بھی بنا ہوتا تھا بلاتکلف خود ہی لے جاتا تھا۔ لیکن یہ روایت اب ختم ہو گئی ہے ایک گھر دوسرے گھر سے بے خبر ہے۔ اب تو دیگیں پک جاتی ہیں لیکن پڑوسی کو کان و کان خبر بھی نہیں ہوتی۔
رمضان کے آخری عشرے میں اپنے اپنے رشتہ داوں کی دعوت کر کے افطاری کراتے تھے، ان میں قریبی رشتہ دار شامل ہوتے تھے جیسے بیٹی داماد، بہنیں اور سالے وغیرہ۔
ہر گھرانا انواع و اقسام کی چیزیں افطاری کے لئے تیار کرتا تھا، امیری غریبی کا کوئی تصور نہیں تھا، مخلصی ہوتی تھی لیکن اب یہ روایت بھی دم توڑ رہی ہے، بہت ہی کم دیکھنے کو ملتا ہے کہ کوئی کسی رشتہ دار کو افطاری کراتا ہے۔
رمضان میں شیطان قید کر لئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے نیکی کرنے میں آسانی ہوتی ہے، دل نرم ہو جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جب مٹی نرم ہوتی ہے تو پودے آسانی سے اگتے ہیں، اسی طرح جب دل نرم ہوتا ہے تو اس میں صلہ رحمی بڑھ جاتی ہے۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ جب رزق کی تنگدستی کو ختم کرنا ہو تو اپنے دسترخوان کو کشادہ کرو۔
رمضان تو برکتوں والا مہینہ ہے، اس میں رشتہ داورں کو دعوت دینے کا جو رواج چلا آ رہا ہے اس کو ختم نا ہونے دیں۔
سحری میں جگانے والوں کی بھی دلچسپ کہانی ہے۔ مشرق وسطی میں کچھ مخصوص لوگ گلے میں ڈھول لٹکائے قرآن شریف کی آیتیں پڑھتے لوگوں کو گہری نیند سے جگاتے تھے۔ خلفائے عباسی کے عہد حکومت میں مصر کے خلیفہ الناصر نے سحری کے لیے جگانے کا یہ طریقہ اختیار کیا تھا۔
کہتے ہیں کہ پرانے زمانے میں بمبئی کی گلیوں میں بھی سحری کے لیے اٹھانے والے زور زور سے دروازے پر دستک دیتے اور آواز لگاتے تھے ”سحری کو اٹھو، نیند سے جاگو، سحری کو اٹھو۔”
پھر پاکستان بننے کے بعد یہاں ڈھول والے سحری کو ڈھول بجاتے تھے اور عید والے دن سب محلے والے اپنی حیثیت کے مطابق ان کو رقم دینے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ روایت بھی کم ہو رہی ہے کیونکہ اب لوگ موبائل پر الارم لگا لیتے ہیں اور بہ آسانی سحری کے لئے اٹھ جاتے ہیں۔
عید کے دنوں میں رشتہ داروں کے گھر جانا فرض سمجھا جاتا تھا لیکن اب تو عید کے پہلے دن جو محلے میں ہیں ان سے مل لیا جاتا ہے جبکہ دور دور کے رشتہ داورں کے گھر جانا شاید لوگ بھول ہی گئے ہیں۔
اگر رمضان اور عید سے ہٹ کر بات بھی کی جائے تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگ ایک دوسرے سے اتنا میل جیل نہیں رکھتے جتنا پرانے زمانے میں رکھتے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ خواتین تو پھر بھی شادی بیاہ میں ایک دوسرے کے ساتھ مل لیتی ہیں لیکن مردوں کو وقت اور زندگی کی بھاگ دوڑ نے اتنا مصروف کر دیا ہے کہ وہ تو صرف میت پر ہی کسی رشتہ دار کی شکل دیکھ لیتے ہیں۔
برزگوں کے ساتھ اپنے رسم و رواج کو دفن نا کیا جائے بلکہ ان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی ان کی روایات کو زندہ رکھا جائے کیونکہ روایات ہی سے کوئی قوم پہچانی جاتی ہے۔