انیلا نایاب
سیاست خدمت کا نام ہے، ملک کی، اپنے لوگوں کی خدمت کا نام ہے، ملک کو ایسے نظام پر چلانے کا نام ہے جس میں ہر چھوٹے بڑے اور امیر غریب کو برابر کا حق ملے۔
لیکن بدقسمتی سے جب سے پاکستان آزاد ہوا ہے اقتدار کے لالچ کی وجہ سے ملک کے حالات بہتری کی بجائے ابتری کی طرف گئے ہیں۔ ہر دور میں عوام کی خدمت کی بجائے سیاست دان اقتدار کے پیچھے بھاگتے نظر آئے اور آج بھی یہی کچھ ہوتا نظر آ رہا ہے۔
ہر الیکشن سے پہلے عوام کو لولی پاپ دیا جاتا ہے اور جیسے ہی نئی حکومت بنتی ہے تو حکومت نئی باقی چہرے سارے وہی پرانے ہوتے ہیں۔ آج کل اگر ملک کے حالات کو دیکھ لیں تو عوام کی فکر کسی کو نہیں سبھی کو کرسی چاہیے اگر یہ سب اتنے فرشتے ہوتے تو 30 سال سے انہوں نے پاکستان کو کیوں ٹھیک نہیں کیا، ترقی کیوں نہیں دی، ملک کو قرضوں کے بوجھ سے کیوں آزاد نہیں کرایا؟
ایک دوسرے پر جھوٹے سچے الزامات لگانے کے علاوہ انہوں نے کیا ہی کیا ہے، ایسا لگتا ہے کہ سیاست ایک نشہ ہے نشے کی عادت پڑ جائے تو یہ عادت ختم نہیں ہوتی البتہ نشے کی مقدار دن بہ دن بڑھتی جاتی ہے۔ اگر ہم ماضی پر نظر ڈالیں تو نواز شریف کو تین بار اقتدار ملا تینوں بار اس نے ایسی غلطی کی کہ اج تک اس کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔
اصل میں سب سے مست نشہ اقتدار کا ہے جب تک یہ نشہ نہ ملے اس کی طلب ہوتی ہے اور جب مل جائے تو بندہ اس نشے میں مست ہو جاتا ہے۔ پھر کہاں ہوش رہتا ہے کہ اس بے عوام سے کیا وعدہ کیا تھا۔
اقتدار تو عوام کی خدمت کرنے کا نام ہے لیکن ہمارے یہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہے ہر ایک سیاست دان اقتدار کے پیچھے بھاگتا ہے اور اس کو صرف وہی کرسی نظر آتی ہے۔ دیکھا جائے تو سیاست دان جتنے بھی گزرے ہیں اُن میں سے اکثریت کو آخر کس چیز کی ضرورت تھی؟ پیسے کی؟ شہرت کی؟ میرے خیال میں کسی چیز کی بھی نہیں لیکن پھر بھی اقتدار کے پیچھے بھاگتے رہے۔
جب 2007 میں بینظیر بھٹو اپنے وطن واپس آئیں تو ان کو کس چیز کی ضرورت تھی، دولت شہرت ہر چیز ان کے پاس تھی کیونکہ ان کا تعلق ایک انتہائی نامی گرامی سیاسی خاندان سے تھا جو کہ کسی بھی تعارف کا محتاج نہیں، ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب نشے کی لت بہت بڑھ جائے تو انسان سوچ سمجھ کھو بیٹھتا ہے۔ نشے میں انسان کسی رشتے کی پرواہ کرتا ہے نہ ہی وہ کسی کی خوشی یا غم کو محسوس کرتا ہے۔
عمران خان اپنے دور کا مایہ ناز کھلاڑی تھا۔ سیاست میں آنے سے پہلے اس کے پاس عزت، شہرت اور نام تھا، پوری دنیا عمران خان کو جانتی تھی، شہرت کی اس بلندی پر تھا جس کی چاہ ہر کسی کو ہوتی ہے، یہ پہچان بھی اس کی ایک اچھا کھلاڑی ہونے کی وجہ سے تھی۔
نام شہرت دولت کمانا غلط نہیں ہے لیکن سیاست اگر عوام اور اپنے ملک کے لئے کی جائے تو ایک مقدس پیشہ ہے جس میں اقتدار، طاقت کے لالچ یا اقتدار کی کرسی کے پیچھے بھاگنا شامل نا ہو تو خدمت خلق کا کام ہے۔ اور اللہ نے ایک اچھا موقع دیا ہوتا ہے جو وہ اقتدار میں رہ کر کر سکتا ہے اپنے ملک و قوم کے لئے کوئی نہیں کر سکتا ہے۔
پاکستان کے عوام کے پاس کوئی چوائس ہی باقی نہیں کہ وہ کس پر اعتماد کریں اور کس پر نہیں کیونکہ آج کل لگتا ہے تمام پارٹیوں کا مکس اچار بن گیا ہے اور سمجھ میں نہیں آتا اس ملک کو بگاڑا کس نے ہے۔