گیس و بجلی اور پانی: ہم سب کا تو اب اللہ ہی حافظ ہے!
حمیرا علیم
پورے پاکستان میں گرمیوں کے آغاز کے ساتھ ہی پہلے سے جاری بجلی کی لوڈشیڈنگ کی شدت اور دورانیے میں اضافہ جبکہ سردی کی پہلی لہر کے ساتھ ہی گیس غائب ہو جاتی ہے لیکن بل ہزاروں میں آتے ہیں۔
اس بار بھی ایسا ہی ہوا اور ہو رہا ہے۔ حالیہ موسم سرما میں کوئٹہ کی ہزارہ برادری نے اس ظلم کیخلاف احتجاج کا فیصلہ کیا اور تین دن تک عورتوں بچوں سمت سڑک پہ بیٹھے رہے لیکن نہ تو ضلعی انتظامیہ میں سے کوئی ان کی شکایات سننے گیا نہ ہی کسی وزیر مشیر نے ان کی داد رسی کی۔ منفی درجہ حرارت میں بچوں کے ساتھ کمبلوں میں بیٹھی خواتین ٹھٹھرتی رہیں اور ارباب اختیار و اقتدار اپنے ہیٹر لگے گرم کمروں میں گرم بستر میں نیند کے مزے لوٹتے رپے۔
لیکن ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ ملک بھر میں محولہ بالا معاملات یا پھر دیگر وجوہاے کے باعث شہری احتجاج کے بعد احتجاج کرتے رہتے ہیں تاہم کبھی کسی نے انہیں درخو اعتناء نہیں سمجھا۔ جمہوری حکومت اور اس کے نمائندے جو لوگوں کے منتخب کردہ ہیں، جن کا منشور عوام کی خدمت ہونا چاہیے، وہ عوامی خدمت کے علاوہ ہر طرح کی سرگرمی میں مشغول پائے جاتے ہیں۔ غریب عوام اپنی ووٹ ڈالنے کی غلطی کا نتیجہ بھگتتی ہے اور مہنگائی کا عذاب جھیلتی ہے لیکن جب برداشت سے باہر ہو جاتا ہے تو احتجاج کیلئے سڑکوں پہ نکل آتی ہے کیونکہ اس کے سوا ان کے بس میں کچھ بھی نہیں ہوتا۔
دنیا بھر میں یہ دستور ہے کہ جو چیز زیادہ استعمال ہوتی ہے اس کی قیمت کم ہوتی ہے مگر پاکستان کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ یہاں بجلی اور گیس کے یونٹس مقرر کر دیئے گئے ہیں۔ اگر کوئی سو یونٹ استعمال کرتا ہے تو اس کا بل فی یونٹ کے حساب سے ہو گا اور اگر وہ سو سے کم یونٹ استعمال کرتا ہے تو اسے سلومیٹر (آہستہ میٹر) کے چارجز 3500 روپے دینے ہوں گے اور ان یونٹس کا بل الگ ادا کرنا ہو گا۔ یہ تو ہو گئے سردیوں کے ریٹ۔ اب سنیے کہ گرمیوں کا کیا معاملہ ہے۔
گرمیوں میں پچاس یونٹ سے کم استعمال پہ 850 روپے سلومیٹر فیس ہے اور یونٹس کا بل الگ ہے۔ اس کے علاوہ نجانے کون کون سے ٹیکسز کی بھرمار ہے بل میں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس میں ٹی وی فیس اور کچرہ اٹھانے کی فیس بھی شامل ہے۔
کسی زمانے میں شہباز شریف نے ترکی کی ایک کمپنی سے معاہدہ کیا کہ وہ ہر علاقے سے کچرہ اٹھائے گی۔ پہلے پہل تو لوگ بہت خوش ہوئے کیونکہ اس کمپنی نے مغربی ممالک کی طرز پہ ویسٹ بِنز اور بڑے بڑے ویسٹ شاپرز دیئے اور ہر گلی سے روزانہ کچرہ اٹھانے لگی۔ پھر آہستہ آہستہ اس کا حال بھی وہی ہو گیا جو کہ پاکستانی میونسپل کارپوریشن کا ہے۔ کچرے والا ٹرک کئی کئی دن نہ آتا۔ لوگ گلی کے آغاز میں بِن تک کچرہ پہنچانے سے تھک گئے تو پہلے والے سوئپرز کو دوبارہ سے بلا لیا۔ اب وہ 300 روپیہ بل میں اس ترکی کمپنی کا ادا کرتے اور سو ڈیڑھ سو سوئپر کو دیتے۔
اگرچہ ہائی کورٹ نے یہ حکم جاری کیا تھا کہ سلومیٹر چارجز ختم کئے جائیں مگر کسی نے پرواہ ہی نہیں کی۔ ذرہ سوچیے ایک ایسا خاندان جس میں صرف دو ورکنگ میاں بیوی ہیں، جو صبح کے گئے شام کو گھر پہنچتے ہیں، کھانا بھی اکثر بازار سے ہی کھا لیتے ہیں، ان کا سو یونٹ کیسے پورا ہو گا؟ یا جو لوگ سردیوں میں دوسرے شہروں میں چلے جاتے ہیں وہ کیا اپنے چولہے اور ہیٹر آن چھوڑ جایا کریں؟ خاندان کا کوئی فرد سارے چولہے، ہیٹر اور گیزر وغیرہ آن کر کے میٹر کے آگے بیٹھا رہے کہ کب یونٹس ایک سو ایک ہوں اور وہ اطمینان سے بیٹھے۔
اس سب پہ مستزاد گیس صبح 6 بجے کی گئی رات 2 بجے آتی ہے تو کیا لوگ کھانا پکانے کیلئے رات دو بجے تک جاگتے رہیں؟ گیس کس وقت استعمال کریں کہ سو یونٹ پورے کر کے سلو میٹر جیسے جگا ٹیکس سے بچ سکیں۔ گیس کی عدم دستیابی کے باوجود لوگوں کے بل چالیس ہزار تک آ رہے ہیں اور وہ حیران پریشان ہیں کہ بل کس چیز کے بھیجے جا رہے ہیں؟
یہی حال بجلی کا ہے۔ گرمی شروع ہوتے ساتھ دو دو گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے۔ دو گھنٹے کے بعد ایک گھنٹے کیلئے بجلی آتی ہے جس کی وجہ سے کوئی بھی کام کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی یہ دورانیہ 6 سے آٹھ گھنٹے کا ہو جاتا ہے اور جیسے ہی بارش کا پہلا قطرہ گرتا ہے بجلی چوبیس گھنٹے کیلئے غائب ہو جاتی ہے۔ رات کو سونا تو ممکن ہی نہیں۔ بچے صبح کلاس رومز میں اور بڑے آفسز میں نیند کے جھونکے لے رہے ہوتے ہیں۔
اگر حکومت مہربانی کرتے ہوئے گیس، بجلی اور پانی کے کنکشنز کاٹ لے اور میٹرز ہٹا دے تو عوام سولر پینل، کنویں، بورنگ اور سلنڈر سے کام چلا لے گی۔ یقیناً ان سب کا خرچ گیس یا بجلی کے بل سے کہیں کم بھی ہو گا۔ میٹرز لگے ہونے کی وجہ سے ہم ان چیزوں کا بل بھر رہے ہیں جن کا وجود ہی نہیں ہے یا شاید ہم جمہوریت کا خراج دے رہے ہیں۔کیونکہ منسٹرز اور انتظامیہ کے بڑے بڑے آفیسرز کے کنالوں، ایکڑوں پہ محیط فارم ہاؤسز اور گھروں میں پانچ پانچ میٹر تو لگے ہوئے ہیں مگر ان کا بل سو ڈیڑھ سو سے زیادہ نہیں ہوتا۔ تو جناب ان سب کا بل بھی تو ہم نے ہی بھرنا ہے۔
حکومتی ادارے لاکھوں کا بجلی گیس پانی استعمال تو کرتے ہیں بل بھی موصول کر لیتے ہیں مگر بل کی ادائیگی ضروری نہیں سمجھتے تو واپڈا، واسا اور سوئی سدرن کیا کرے، انہیں تو اپنا نقصان پورا کرنا ہی ہے چنانچہ وہ مٹھی بھر بھر کے یونٹس عوام پہ تقسیم کر دیتے ہیں۔
ویسے سارا قصور حکومت اور اداروں کا ہی نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں نا جیسی روح ویسے فرشتے تو جناب ہم عوام بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ لاہور کے کچھ علاقوں کی ویڈیوز سوشل میڈیا پہ دیکھنے کو ملیں اور کوئٹہ کی کئی گلیاں ایسی ہیں جہاں ساٹھ سے سو گھر موجود ہیں، جن میں بڑی فیملیز رہتی ہیں، وہ سب کنڈے پہ بجلی، گیس اور پانی استعمال کرتے ہیں۔ پہلے تو وہاں میٹر موجود ہی نہیں اور جو اکا دکا ہیں اگر بھولے بھٹکے کوئی میٹر ریڈر وہاں چلا ہی جائے تو اسے دھمکیاں دے کر بھگا دیا جاتا ہے۔ اور اگر وہ کچھ زیادہ ہی ایمانداری کا مظاہرہ کرے تو اسے اچھی طرح مار پیٹ کر واپس بھیجا جاتا ہے تاکہ کوئی دوسرا اس جیسی غلطی دہرانے کا سوچے بھی نہ۔
ہر شخص کا جہاں داؤ چلتا ہے وہ وہیں ہاتھ کی صفائی دکھا جاتا ہے۔ جیسے ہم ہیں ویسے ہی ہمیں حکمران ملے ہیں۔ آثار تو یہی دکھائی دیتے ہیں کہ جلد ہی ہم پتھروں کے زمانے میں لوٹ جائیں گے جہاں کپڑوں کی جگہ جانوروں کی کھالیں، گھروں کی جگہ غاریں، گیس کے چولہے کی جگہ لکڑیاں، بجلی کی جگہ مشعلیں اور اشیائے خوردونوش کی جگہ شکار کیے ہوئے جانور استعمال کیے جائیں گے۔ کیونکہ مہنگائی کی وجہ سے عوام کیلئے کھانا پینا، رہائش اور دوسری، ضروریات زندگی افورڈ کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ ہم سب کا تو اب اللہ ہی حافظ ہے!