اللہ نے عورت کو جو حق دیا اس سے انحراف کرنے والے ہم آپ کون ہوتے ہیں؟
فاکہہ قمر
ہمارا معاشرہ جہاں بے شمار خرابیوں اور مسائل میں گھرا ہوا ہے وہیں معاشرے میں سب سے ادنی و حقیر عورت کو مانا اور سمجھا جاتا ہے۔ بعض تو عورت کو محض بچے پیدا کرنے والی مشین یا اپنی جوتی کی خاک گردانتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ خواتین کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ان کو کمزور اور تنہا سمجھا جاتا ہے۔خواتین کو بہت سے مسائل درپیش ہیں لیکن سب سے بڑا اور تکلیف دہ مسئلہ پاکستان میں خواتین کے وراثت کا ہے۔ یہ ایک بہت ہی بڑا سماجی مسئلہ ہے اور ایسے ہزاروں مقدمات ہیں جو ملک بھر کی عدالتوں میں زیرسماعت ہیں، خواتین کو اپنا حق لینے کے لیے عدالتوں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو اک اسلامی جمہوریہ میں ہمارے مذہب نے خواتین کے لیے جو احکامات جاری کئے ہیں وہ حرف آخر ہیں۔ ہمارے مذہب نے عورت کو جس قدر حقوق عطا کیے ہیں اتنے تو انسان بھی دینے سے قاصر ہیں۔ اسلام نے خواتین کو سماجی، قانونی، معاشی اور سیاسی تناظر میں تمام بنیادی حقوق عطا کیے ہیں۔ ان میں زندگی کا حق، عزت کا تحفظ، باپ، بھائی، شوہر اور بیٹے کی جانب سے مکمل کفالت، تعلیم، کاروبار یا مال کمانے کا اختیار، حق وراثت، رضامندی سے شادی، آزادی رائے کا اظہار، عبادات اور سماجی سرگرمیوں میں شمولیت جیسے حقوق شامل ہیں۔
اسلام نے عورت کو بہت ہی عزت و احترام دینے کے علاوہ ان کے دوسرے بہت سے حقوق کا خیال رکھنے کی تاکید کی ہے، انہی میں سے ایک وراثت کا حق بھی ہے ۔قرآن مجید میں متعدد بار خواتین کے اس حق کا ذکر کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: ”مردوں کے لیے اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتے داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتے داروں نے چھوڑا ہو خواہ وہ تھوڑا ہو یا زیادہ اور یہ حصہ (اللہ کی طرف سے) مقرر ہے۔” سورة النساء، آیت نمبر: (7تا14)۔
قرآن پاک میں جہاں تذکرہ ہے وہیں آپؐ نے بھی خواتین کو وراثت میں ان کا حق دینے کی تلقین کی ہے۔ رسول اللہ نے فرمایا: ”جو اپنے وارث کو میراث سے محروم کر دے گا تو اللہ تعالی قیامت کے دن اس کو جنت کی میراث سے محروم کر دے گا۔”
ان احکامات سے واضح طور پر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جیسے مردوں کو عزت و تکریم حاصل ہے ویسے ہی خواتین کو بھی برابر کا حصہ دار مقرر کیا گیا ہے لیکن افسوس صد افسوس ہم زمین پر فرعون بنے بیٹھے ہیں اور ان کو کمزور جانتے ہوئے ان کی حق تلفی کرتے ہیں اور نہ صرف ان کے حق ضبط کرتے ہیں بلکہ اوپر سے سینہ زوری بھی کرتے ہیں۔ آئے روز ہم اخبارات میں سرخیاں پڑھتے ہیں جن میں عموماََ ماں، بہن، بیٹی یا بیوی کو جائیداد کے تنازعے میں قتل کر کے موت کے گھاٹ اتارا گیا ہوتا ہے۔ یہ سفاکیت کی انتہا ہے۔ جس ذات کے قبضے میں ہماری جان ہے جب اس نے حکم صادر کر دیا ہے تو پھر میں یا آپ کون ہوتے ہیں اس سے انحراف کرنے والے؟
خواتین کو شادی کے بعد بھی بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض تو مجبوری کے تحت مجبور ہو کر اپنے حق کا مطالبہ کرتی ہیں لیکن اپنے ہی پیاروں کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہو کر رہ جاتی ہیں۔ کچھ باہمت خواتین اپنے حق کی آواز کو بلند کرنے کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا دیتی ہیں تاکہ قانون ان کی مدد کرتے ہوئے انصاف دلوا سکے لیکن افسوس ادھر بھی ان کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور گھر والوں سے زیادہ قانون ان کو رسوا کر کے رکھ دیتا ہے جس کے نتیجے میں عام طور پر کیس واپس لے لیا جاتا ہے یا پھر کیس کو اس قدر کھینچا جاتا ہے کہ مطلوبہ فرد کی زندگی میں اس کا فیصلہ ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
بعض صورتحال میں تو کیس کرنے والی خواتین کے کیس کی شنوائی و منظوری ان کی وفات کے بعد ہوئی ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کے وہ افسوس ناک پہلو ہیں جن سے آئے روز خواتین کا واسطہ پڑتا ہے اور وہ تنہا ان محاذوں پر لڑتی ہیں، کچھ کامیاب ہو جاتی ہیں اور کچھ زندگی ہار جاتی ہیں اور کچھ کی قسمت تب جاگتی ہے جب وہ دیکھنے کے قابل نہیں رہتیں۔
ہر سال کی طرح امسال بھی 8 مارچ کو، خواتین کے عالمی دن کے موقع پر جہاں خواتین کے بے شمار مسائل کو زیر بحث لایا گیا وہیں پر اس اہم نکتہ پر بھی نظرثانی کا مطالبہ کیا گیا۔
میری تمام مذہبی رہنماؤں سے یہ اپیل ہے کہ خواتین کے اس بنیادی و جائز حق میں ان کا ساتھ دیں اور ان کے لیے آواز بلند کریں، اور حکومت وقت سے یہ اپیل کہ دینِ اسلام کے ساتھ ساتھ ملکی آئین و خواتین سے متعلق دیگر قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنائے کیونکہ بطورر مسلمان مائیں، بہنیں یا بیٹیاں سب کی سانجھی ہیں۔
اللہ ہمارے لیے آسانی پیدا کرے اور ہمیں آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین!
(ختم شد)۔