وہ رات جب 4 خواتین کے درمیان خراٹوں کا مقابلہ تھا
رانی عندلیب
یہ بات مکمل طور پر کوئی نہیں جانتا کہ ہم میں سے کتنے لوگ خراٹے لیتے ہیں۔ لیکن یہ مسئلہ بڑھ رہا ہے۔ اس سے نہ صرف خراٹے لینے والوں کی اپنی نیند میں خلل پڑتا ہے (یہ الگ بات ہے کہ جو خراٹے لیتے ہیں وہ یہ حقیقت ماننے سے انکار کرتے ہیں) بلکہ خراٹوں سے آس پاس کے لوگوں کو بھی کافی پریشانی ہوتی ہے۔
جیسا کہ چند دن پہلے کی بات ہےجب میں ٹریننگ کے سلسلے میں اسلام آباد میں تھی ایک تو جگہ تبدیل ہونے سے نیند میں خلل پڑا جس کی وجہ سے آنکھ دیر سے لگی اور دوسری وجہ میری روم میٹ کی خراٹوں بھری نیند تھی۔ وہ صبح کے وقت اتنے زور سے خراٹے لے رہی تھی کہ میری ساری نیند خراب ہو گئی اور خراٹے بھی اس انداز سے کہ جس سے میں چند سال پہلے کے دور میں چلی گئی۔
چند سال پہلے کی بات ہے جب ہمارے خاندان میں ایک تقریب تھی جس کے لیے تمام لوگ رات گزارنے آئے تھے۔ رات کو تقریباً تین بجے کے قریب تمام خواتین بڑے سے کمرے میں سونے کے لیے گئیں۔ ابھی دس پندرہ منٹ نہیں گزرے تھے کے خراٹے لینے کا مقابلہ 4 خواتین کے درمیان شروع ہو گیا۔ خراٹوں کی آواز کچھ اس قسم کی تھی (خررررررررر۔ فففففشششششششششششش۔ بییژژژژژژژژژژژ۔ خڑڑڑڑڑڑڑڑ) ہم نے انہیں بہت آوازیں دیں کہ آنٹی سائیڈ چینج کریں،
کسی کو جگایا کہ آنٹی سیدھی ہو جائیں آپ خراٹے لے رہی ہیں تو اس نے خراٹے لینے سے انکار کیا کہ میں ابھی سوئی نہیں تو خراٹے کیوں لوں گی۔ ایک آپا کو بار بار آواز دی کہ صحیح ہو جائیں۔ انہوں نے کہا کہ خراٹے نہیں لے رہی بلکہ ساتھ میں لیٹی ہوئی دوسری آپا لے رہی ہیں۔
آنٹی تکیہ صحیح کریں ہم میں سے ایک بندہ اٹھا اور ان کے چپل بھی الٹے کیے کیونکہ بچپن میں بڑے بزرگوں سے یہ بات سنی تھی کہ چپل الٹا کرنے سے جو بندہ خراٹے لیتا ہے وہ خراٹے لینا بند کر دیتا ہے لیکن کوئی تدبیر کوئی دعا کوئی آواز کام نہ آئی۔ پھر میں اور میری دو تین کزنز خوب ہنسیں کیونکہ رات کے تین بجے ہم ایسے خراٹوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور وہ میوزک ایسے سر میں بج رہا تھا جس کو بجانے والا بالکل بھی نہیں تھکتا تھا۔ لیکن میری امی نے مجھے خوب ڈانٹا اور میری کزن کو ان کی امی نے خوب ڈانٹا کہ رات کے اس وقت بھی کوئی ہنستا ہے پرائے گھر میں اس طرح نہیں کرتے۔
رات اتنی لمبی ہو گئی کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی اور سریلی آوازیں مختلف دھنوں کے ساتھ سن رہے تھے۔ نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ جب ہم سب صبح اٹھیں اور رات کی موسیقی (خراٹوں) کے بارے میں سب کو بتایا کہ خراٹے لے رہی تھیں تو آنٹی غصہ ہو گئیں کہ کیوں اس طرح کہہ رہی ہو جبکہ بعض خود بھی ہنس رہی تھیں کہ ہم نہیں لے رہے تھے۔
ویسے اگر عام بات کی جائے تو آج کل تمام لوگ خراٹے لیتے ہیں اور اگر کسی سے پوچھا جائے کیا آپ نیند کے دوران خراٹے لیتے ہیں؟ تو فوراً انکار کر دیتے ہیں اور ایسے دیکھتے ہیں کہ جیسے یہ لوگ خراٹوں کو نہیں جانتے یا ہم نے ان کو گالی دی ہو۔
ویسے تو یہ اتنے نقصان دہ نہیں ہوتے تاہم ان کی شدت بڑھنے سے دماغی افعال پر اثرات مرتب ہوتے ہیں جس سے فالج، دل کے دورے اور ڈپریشن سمیت مختلف امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
مگر یہ خراٹوں والی عادت گھر والوں کی نیند بھی متاثر کرتی ہے۔ کسی خراٹے لینے والے شخص کے قریب سونا آسان نہیں ہوتا۔
چند دن پہلے کی بات ہے جب میں اپنی بڑی بہن کے قریب سو رہی تھی کہ وہ خراٹے لینا شروع ہو گئی۔ میں نے اسے خراٹے لینے سے منع کیا اور بار بار جگایا کہ خراٹے کیوں لے رہی ہو لیکن الٹا اس نے مجھ پر بہت غصہ کیا کہ میں خراٹے نہیں لے رہی مجھے ڈسٹرب نہ کرو۔
اللہ اس جدید دور کا بھی بھلا کرے، اسمارٹ فون جو ہے، بس میں نے جھٹ سے اپنا موبائل اٹھایا اور اپنی بڑی بہن کے خراٹوں کو ریکارڈ کیا تاکہ میرے پاس اس کا ایک ثبوت ہو، جب وہ نیند سے بیدار ہوئی تو میں نے اپنے تمام گھر والوں کو خراٹوں کی ریکارڈنگ سنائی کہ اس طرح خراٹے لے رہی تھی اور مجھ پر غصہ بھی کیا۔ جب میں نے اس کو کہا کہ میری نیند کو ڈسٹرب کر رہی ہو تو الٹا انہون نے مجھے ڈانٹا کہ میری نیند کیوں خراب کر رہی ہو اور میں خراٹے بھی نہیں لے رہی۔
جب کہ بعض ماہرین کا کہنا ہیں کہ سونے کے وقت سے پہلے کھانے یا بہت زیادہ کھانے سے گریز کرنا چاہئے، کیونکہ جب معدہ غذا سے بھرا ہو تو اس سے سانس کے ردھم پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، جس سے خراٹوں کا خطرہ بڑھتا ہے کیونکہ جسم کو غذا ہضم کرنے کے لیے زیادہ ہوا کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ اپنے ناک کو صاف رکھنا خراٹوں سے نجات کا ایک سادہ حل ہے، ناک میں جمع ہونے والا کچرا سانس کی گزرگاہ میں رکاوٹ بنتا ہے جس کے نتیجے میں منہ سے سانس لینا پڑتا ہے جو خراٹوں کا باعث بنتا ہے۔