مجھے باپ نے نہیں اس معاشرے نے مارا ہے…!
سدرہ ایان
ایک وقت تھا جب تاریکی کے دور میں بیٹی کو پیدا ہوتے ہی زندہ گاڑ دیا جاتا تھا۔ تب ان اندھیروں میں حضور پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم روشنی بن کر آئے اور یوں عورت کو ایک بلند مقام عطاء ہوا۔
لوگوں نے ماں کے قدموں تلے جنت پر یقین کرنا شروع کیا، بہن، بیٹی اور بیوی کو عزت دینے لگے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ چیزیں بدلنے لگیں۔ لوگ مذہب سے زیادہ ثقافت اور معاشرے کو ترجیح دینے لگے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ لوگ مذہب کے نام پر ثقافت اور معاشرے کی پیروی کرنے لگے۔
یہاں پر میں یہ بھی واضح کرنا چاہتی ہوں اسلام کے پیروکار ثقافت کی پیروی کیسے کرنے لگے۔
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تمھاری بیٹی بالغ ہو جائے تو جاؤ مسجد میں اعلان کرو کہ میرے گھر میں بیٹی ہے اگر کوئی اس سے شادی کرنا چاہتا ہے تو رشتہ بھیج دے۔
میں اپنے پورے معاشرے کو چیلنج کرتی ہوں کہ اس میں دو فیصد مسلمان بھی ایسے نہیں جو مسجد میں جا کر ایسا کوئی اعلان کر سکیں۔ بلکہ آپ خود سوچیں اگر آپ کسی سے ایسا کرنے کا کہیں تو اس کا کیا ردِ عمل ہو گا؟ لوگ کیا کہیں گے؟ کیا میں اتنا بے غیرت ہوں کہ اب لوگوں کے سامنے اپنی بیٹی کی جوانی کا اعلان کروں گا؟
یہاں آپ کی مسلمانی کدھر چلی جاتی ہے؟
دوسری بات تاجر خاتون حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ عنہ کی مثال لے لیں۔ لیکن اگر آج کل کے دور میں کوئی خاتون تاجر بننا چاہتی ہے تو اس کا باپ بھائی اور شوہر کہتے ہیں کہ ہم اتنے بے غیرت نہیں کہ گھر کی عورتوں کی کمائی کھائیں۔ (نوٹ: یہاں میرا مقصد آج کل کی خواتین اور حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ عنہ کا موازنہ کرنا یا ان کو ایک جیسا سمجھنا ہرگز نہیں ہے، یہاں میں صرف اُس دور اور آج کے دور کے سوچ کی بات کر رہی ہوں)۔
تو خود سوچ لیں کہ ثقافت کے سامنے جھکنے والے اسلام کے پیروکار ہیں یا اپنی خود ساختہ سوچ کی بندگی کرنے والے پُجاری؟
اسلام نے عورت کو جو مقام دیا ہے کیا وہ اسلام کے پیروکار بھی دیتے ہیں؟
ہمارے لوگ دین اسلام نہیں، معاشرے پر ایمان لانے لگے ہیں، ان کو لگتا ہے کہ اگر معاشرہ ان سے خوش ہے تو ان کی عزت کی جائے گی، ان کا خیال رکھا جائے گا۔ میں پوچھتی ہوں عزت اور خوشی دینے والا معاشرہ ہے یا اللّہ؟
میں کوئی بھی بات بے بنیاد نہیں کہہ رہی، اگر پسند سے نکاح کریں گے تو لوگ کیا کہیں گے؟ ”تم اتنی بے شرم اور بے حیاء کب سے ہو گئی؟ یہ شادیاں تو ہم نے بھی کیں ہیں، ہمیں تو شادی سے ایک دن پہلے بتایا جاتا تھا کہ کل تمھاری شادی ہے، ہم نے تو کبھی اپنے والدین سے سوال نہیں کیا..”
”اگر تم مقتول کے بھائی سے شادی کرو تو تمھارے بھائی کی زندگی بخش دی جائے گی۔۔ بیٹی وہ تمھارے پاپا کے دوست کا بیٹا ہے، تمھیں خوش رکھے گا، اس رشتے داری سے ہماری دوستی اور بھی مضبوط ہو جائے گی۔”
کیا ہوا؟ سُنے ہیں نا ایسے جملے؟
پھر تو یہ بھی سنا ہو گا کہ "ہائے اللہ بے چارے کی بیٹی پیدا ہوئی ہے، ہمارے خاندان میں سب کے ہاں پہلے بیٹا پیدا ہوتا ہے، میں چاہتا ہوں کہ تم بھی مجھے پہلے بیٹا دو، فلاں کے لیے دوسری لڑکی ڈھونڈ رہے ہیں، پہلی بیوی کی صرف بیٹیاں ہی پیدا ہوتی ہیں۔”
شرم نہیں آتی تم لوگوں کو عورت سے بیٹا مانگتے ہوئے؟ کیا وہ (نعوذباللہ) کوئی خدا ہے کہ وہ بیٹا ہی پیدا کرے گی، اور تم ہوتے کون ہو پھر عورت کو الزام دینے والے؟ کیا بیٹی کو صرف اس نے جنا ہے؟ کیا وہ تمھارا خون نہیں ہے؟ اگر تمھیں بیٹی پیدا ہونے پر شرمندگی ہے تو بیوی کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے جا کر خود شرم سے ڈوب مرو کیوںکہ اسے پیدا کرنے میں تمھارا ہی ہاتھ ہے۔
ایسے جاہلوں کو تو دیکھ کر میرے دماغ کی رگیں پھٹنے لگتی ہیں کہ معاشرے کی واہ واہ کے لیے ان کو عورت سے بیٹا ہی چاہیے ہوتا ہے، بیٹی ہوئی تو لوگ کیا کہیں گے، چلو گولی مار کر ثابت کرو کہ میں اتنا بے غیرت تو نہیں کہ اب بیٹی پالوں، اس طرح لوگوں کی باتیں بھی سننے کو نہیں ملیں گی۔
میانوالی میں ہونے والے واقعے پر سوشل میڈیا میں ایک طوفان برپا ہے، مجھے تو حیرت ہوتی ہے اپنی بیویوں سے بیٹے مانگنے والوں نے بیٹی کو مارنے والے باپ کو خوب گالیاں اور بددعائیں دیں۔
اس معاشرے کی تو مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی، بیٹی پیدا ہونے پر باتیں بھی کرتے ہیں، بیٹی کو مارنے والے کو بھی نہیں چھوڑتے جبکہ بیٹی کو پڑھانے لکھانے اور نوکری کروانے والے کو بھی بے غیرت اور ایسے بہت سے القابات سے نوازتے ہیں۔
اگر معاشرہ بیٹی کو رحمت سمجھ کر قبول کرتا تو کیوں ایک باپ ننھی سی جان کو گولیوں سے چھلنی کرتا، اس ننھی سے جان کو صرف باپ نے نہیں پورے معاشرے نے مارا، جو بھی بیٹی کو بوجھ سمجھتا ہے، جو بھی بیٹی کا خیال رکھنے والے کو بے غیرت سمجھتا ہے، اس ننھی سی بچی کو مارنے میں ان کا بھی ہاتھ ہے۔
ب
اپ کا ہاتھ پستول تک کون لے کر گیا؟ کن لوگوں کی باتوں سے تنگ آ کر اس نے اپنے ہاتھ اپنے ہی خون میں رنگ دیے؟
ایسی کون سی باتیں تھیں جنہوں نے اس باپ سے یہ احساس بھلا دیا کہ اس وجود کو بننے میں نو مہینے لگے، کوئی کیسے نو مہینے میں بننے والی ننھی سی جان کو نو سیکنڈز میں ختم کر سکتا ہے؟
ہمارے لوگوں کو چاہیے کہ اس مذہب یعنی "مذہبِ معاشرہ ” میں اس بات کا احساس بھی شامل کریں کہ ایک بچے کو جننا کیسا ہوتا ہے اور پھر اس کو اس کی ماں کی آنکھوں کے سامنے گولی مارنے کا درد کیسا ہوتا ہے۔ گھر کے کاموں سمیت نو مہینے اپنے زندہ وجود کے اندر کوئی دوسری زندہ جان اپنے ساتھ پھرانا کیسا ہوتا ہے، ہر لمحہ ڈر، خوف، درد، تکلیف سہنا کیسا ہوتا ہے۔
میری خواہش ہے کہ ڈیلیوری کے وقت عورت کے ساتھ اس کے شوہر کو بھی اس کے سامنے بٹھایا جائے تاکہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھے کہ عورت کس طرح موت کے پاس سے ہو کر گزرتی ہے، تم وہ درد، وہ تکلیف اپنی آنکھوں سے دیکھ لو تو یقیں جانو تمھیں پتہ چل جائے گا کہ جس عورت کو تم کمزور سمجھتے ہو وہ دراصل ہے کیا..! اور تب تمھیں پتہ چلے گا کیا بیٹے کی خواہش اپنی بیوی سے کرنا جائز ہے؟
شرم کا مقام ہے کہ عورت تمھیں بچہ دینے لیے موت کے منہ میں جاتی ہے اور تم کہتے ہو کہ یہ لڑکا نہیں ہے اور مجھے لڑکا چاہیے۔
بیٹے کی بار بار ڈیمانڈ پر پتہ نہیں وہ عورت کیا سوچ رہی ہو گی کہ کیا اس کی ذات اتنی غلیظ چیز ہے کہ ہر کوئی بیٹی کے نام سے کتراتا ہے؟ بیٹے اتنے پسند ہیں تو یہ بھی مت بھولو کہ جس کے ساتھ سو رہے ہو وہ بھی کسی کی بیٹی ہی ہے!
میں خود اک بیٹی ہوں اور مجھے بیٹی ہونے پر فخر ہے۔ میرے والدین کے لیے شائد بیٹوں نے اتنا کچھ نہیں کیا جتنا میں نے بیٹی ہوتے ہوئے کیا ہے۔ اگر خدا مجھے بیٹی دیتا ہے تو فخر سے میرا سر بلند ہو گا کہ رحمت دینے کے لیے مجھے چنا گیا ہے۔ اگر اس کی پسند سے اس کا نکاح کرواؤں گی تو مجھے سکون ہو گا کہ میں سُنت پوری کر رہی ہوں کیوں کہ میرا مذہب مذہبِ معاشرہ نہیں، میرا مذہب دینِ اسلام ہے۔ میں معاشرے کی سوچ کو نہیں پوجتی، میں اس ایک خدا کو ماننے والی ہوں جو مجھے رحمت دینے کے لیے چنے گا..!