گلبدین حکمتیار صاحب۔۔۔ بیٹی کی شادی مبارک ہو!
مصباح الدین اتمانی
پچھلے چند دنوں سے سوشل میڈیا پر افغان رہنماء اور حزب اسلامی کے بانی گلبدین حکمتیار صاحب کی بیٹی جو پیشے کے لحاظ سے ایک ڈاکٹر ہے، ان کی شادی کے چرچے ہیں۔
لیکن دوسری جانب زیادہ تر پشتون بھائی اس پر خوشی منانے کی بجائے ناراض ہیں اور گلبدین حکمتیار صاحب سے شکوہ کرتے ہیں کہ ہمیں اور ہمارے بچوں کو بندوق تھما کر جنگ پر لگا دیا جبکہ خود اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔
لیکن میرے خیال میں ان کا یہ شکوہ سراسر غلط اور بے معنی ہے کیونکہ گلبدین حکمتیار صاحب نے وہی کیا ہے جو بحیثیت ایک باپ ان کا فرض بنتا تھا، کتنی خوشی کی بات ہے کہ انہوں نے پہلے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو یکساں حقوق دیے، پھر ان کو سکول بھیجا، پھر کالج بھیجا۔
حکمتیار صاحب کی جس بیٹی کی شادی ہو رہی ہے اس نے کراچی کی ایک مشہور میڈیکل یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے، تعلیم حاصل کرنے کے بعد پشاور آ گئی اور یہاں کے ایک نجی ہسپتال میں سیکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس کے ساتھ ایک ہی ہسپتال میں ڈیوٹی سرانجام دینے والے ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ گلبدین حکمتیار صاحب کی بیٹی اسلامی اقدار کا مکمل خیال رکھتی، روایتی برقعہ نہیں وہ عبایا پہن کر آتی اور چہرے کے علاوہ اپنا پورا جسم ڈھانپا کرتی تھی، تعلیم مکمل کرنے کے بعد اب اس کے والد محترم جناب گلبدین حکمتیار صاحب اس کی مرضی سے اس کی شادی پشاور کے ایک معروف ڈاکٹر کے فرزند سے کروا رہے ہیں جو خود بھی پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہے اور یہ شادی عام اور سادہ نہیں ہو گی بلکہ پشاور کے مہنگے ترین ہوٹل میں انجام پائے گی جس میں خاص خاص لوگوں کو مدعو کیا گیا ہے کیونکہ اللہ تعالی نے موصوف کو استطاعت دی ہے۔
اسلامی تعلیمات کی پیروی کرتے ہوئے بیٹی کو اپنا جائز حق دلا کر گلبدین حکمتیار صاحب نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ ایک بہترین باپ ہیں، پہلے ان کی تمام ضرورریات پوری کیں، پھر تعلیم دلائی، پھر۔۔ پھر نوکری کی اجازت دی اور اب اس کی شادی اس کی مرضی سے کروا رہے ہیں۔
بات میں اپنے پشتون بھائیوں کے بے جا گلے شکوؤں کا کر رہا تھا، گلبدین حکمتیار صاحب کے نقش قدم پر آپ چلتے تو آج آپ کے بچے بھی ڈاکٹرز اور انجینئرز ہوتے، گلبدین حکمتیار صاحب کے نقش و قدم پر چلتے تو آپ لوگ بھی اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر کرتے، گلبدین حکمتیار صاحب کی طرح آپ کا بھی اپنے بچوں پر کنٹرول ہوتا، خوشی کے موقع پر شکوے شکایتیں نہیں کرتے، آپ اور آپ کے بچوں نے گلبدین حکمتیار صاحب کے حکم پر جو کچھ کیا ہے وہ تو تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا، سوویت یونین کو افغانستان سے بھگا دینا آپ لوگوں کا ہی تو کارنامہ ہے۔ ہاں! اقتدار کی خاطر 90 کی دہائی میں خانہ جنگی کے دوران جو ہزاروں افغان مارے گئے تھے وہ افسوسناک ہے لیکن خیر ہاتھیوں کی لڑائیوں میں یہ سب تو ہوتا رہتا ہے، حکمتیار صاحب کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں کہ وہ آج بھی آپ لوگوں کیلئے فکرمند ہیں، ان کا اپنا نواسہ امریکن یونیورسٹی میں پڑھاتا ہے تو وہ شوق سے وہاں نہیں گیا ہے، یہاں آپ کے بچوں کو انگریزی تھوڑی آتی ہے؟ ہاں! جو بیٹی ہے وہ اب آپ اور ہماری بہنوں اور بیٹیوں کا علاج کرے گی، کیا یہ کم ہے؟
نہیں ناں؟ تو پھر یہ شکوے شکایتیں کرنے کا سلسلہ بند کریں اور گلبدین حکمتیار صاحب کا وہ ماضی یاد کریں تاکہ آپ کو سمجھنے کا موقع ملے اور اگر آپ کو معلوم نہیں تو میں گلبدین حکمتیار کے حوالے سے مختصر بتا دیتا ہوں۔
1947 کو شمالی افغانستان کے صوبہ کندوز میں پیدا ہونے والے سابق وزیر اعظم اور حزب اسلامی کے بانی گلبدین حکمتیار کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بہت سخت زندگی گزاری ہے، زمانہ طالب علمی میں جب "سازمان جوانان مسلمان” میں شامل ہوئے تو ان پر یہ الزام لگا کہ پولی ٹیکنک کالج کابل کے بے حجاب طالبات پر تیزاب پھینکا ہے۔
1979 میں سوویت یونین کی افغانستان آمد کے بعد مجاہدین کی جو فورس بنائی گئی، اس میں گلبدین حکمتیار نے روس کے انخلاء تک انتہائی متحرک اور بنیادی کردار ادا کیا، روس کے نکلنے کے بعد افغانستان میں اقتدار پر خانہ جنگی شروع ہوئی، گلبدین حکمتیار نے احمد شاہ مسعود سے کابل کا قبضہ چھڑانے کیلئے شہر پر راکٹوں سے حملہ کیا اور شدید گولہ باری کی،جس میں ہزاروں عام شہری مارے گئے، پورے شہر میں کوئی عمارت سلامت نہیں بچی تھی، جس کے بعد وہ افغانستان میں "کابل کے قصاب” کے نام سے مشہور ہوئے۔
1996 میں طالبان کی حکومت آئی تو گلبدین حکمتیار روپوش ہو گئے جبکہ احمد شاہ مسعود پنجشیر کے پہاڑوں میں جا بسے۔
2001 میں امریکہ نے افغانستان پر حملہ کر کے طالبان کی حکومت گرا دی اور اقتدار شمالی اتحاد کے حوالے کیا کیونکہ وہ طالبان کیخلاف پچھلے پانچ سالوں سے برسرپیکار تھے، امریکہ نے گلبدین حکمتیار کو حکومت میں شامل کرانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے حکومت کا حصہ بننے کی بجائے امریکہ کیخلاف لڑنے کا اعلان کیا، 2003 میں امریکہ نے ان کو عالمی دہشتگرد قرار دے دیا جس کے بعد وہ غائب رہے اور 2016 میں افغان حکومت کے ساتھ کامیاب مذاکرات کے بعد دوبارہ منظر عام پر آ گئے۔ اس کے بعد سے گلبدین صاحب کی کہانی یا ان کا کردار آپ سب کے سامنے ہے۔ فی الحال تو ہم ان کی اس خوشی میں برابر کے شریک، اور انہیں دلی مبارکباد پیش کرتے ہیں۔