وومن ڈے: زمانہ خراب ہے یا لوگوں نے منفی سوچ کا لبادہ اوڑھ لیا؟
سلمیٰ جہانگیر
دنیا میں دو ہی صنف ہیں: مرد اور عورت، دونوں ہی اشرف المخلوقات ہیں۔ دونوں کے اپنے اپنے حقوق اور فرائض ہیں اور دونوں کی اپنی الگ الگ پہچان!
ہمیں معلوم ہے کہ عورت پہلے کیا تھی، ایک حقیر شے! مگر میرے آقا حضورؐ نے اُسے مردوں کے قدموں سے اُٹھا کر اُس کے پہلو میں بٹھا دیا۔
عورت سب سے پہلے رحمت ہے جو بیٹی بن کر سب کے دلوں پر راج کرتی ہے، بہن بن کر ایک مخلص دوست اور بیٹی بن کر ماں کا بازو بن جاتی ہے۔ بیوی ہوتی ہے تو ساتھ نبھانے والی، اور جب وہ ماں بنتی ہے تو اللہ تعالی اُس کا رتبہ اتنا بلند کر دیتا ہے کہ جنت کو اس کے قدموں میں ڈال دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے تخلیق کے درجے میں عورت اور مرد کو برابر رکھا ہے۔ انسان ہونے کے ناطے عورت کا وہی رتبہ ہے جو مرد کو حاصل ہے۔
پشاور کی ماریہ کے بقول خواتین کا عالمی دن منانے سے ہمارے معاشرے کے کچھ شرپسند لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے، ان کو لگتا ہے کہ عورت اپنے لئے بے حیائی کی راہیں ہموار کرنے کے لئے نکلی ہے جبکہ حقیقت یہ نہیں ہے، "میں نے دیکھا ہے کہ خواتین میں بیک وقت کئی طرح کے مختلف کام کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے، پرانے وقتوں میں وہ کھیتوں میں مردوں کی مدد کرتی تھیں، گھر سنبھالتی تھیں اور سلائی کڑھائی جیسے کام کر کے اضافی آمدن کا بھی باعث بنتی تھیں، آج کل کی عورت بھی اپنے کام بخوبی سرانجام دیتی ہے لیکن کام کرنے کا زاویہ بدل گیا ہے۔”
ماریہ کے مطابق پرانے وقتوں کی خواتین عموماً پڑھی لکھی نہیں تھیں تو وہ اپنے گھر کے مردوں کے ساتھ کھیتی باڑی کرتی تھیں، کبھی ان کو طنز کا نشانہ نہیں بنایا گیا نا ہی کسی کو ان کے کام پر اعتراض ہوتا تھا۔
شوالہ بی بی اپنے شوہر کے ساتھ کھیتوں میں کام کرنے جاتی تھیں۔ صبح آذان ہونے سے پہلے گندم کی کٹائی کے لیے جانا ہوتا تھا کیونکہ دن کو سورج کی دھوپ تیز ہونے سے کام نہیں ہو سکتا تھا، ایک دفعہ ان کے شوہر کو بخار ہوا تو ان کو اکیلے جانا پڑا، ان کو کبھی ڈر نہیں لگا کیونکہ اس وقت گاؤں کے دوسرے گھروں سے بھی عورتیں اپنے مردوں کے ساتھ کھیتوں میں کام کرتی تھیں۔ شوالہ بی بی سے جب پوچھا گیا کہ آج کل کیوں عورتیں کھیتوں میں کام نہیں کرتیں تو انہوں نے بتایا کہ آج کل زمانہ بہت خراب ہے۔
دوسری طرف مس انجم شوالہ بی بی کی اس رائے سے اتفاق نہیں کرتیں، ”زمانہ خراب نہیں لوگوں کی سوچ نے منفی لبادہ اوڑھ لیا ہے، لوگوں کو اس بات پر کبھی اعتراض نہیں ہوا کہ عورت ان کو کما کر دیتی ہے یا گھر چلاتی ہے لیکن اگر وہی عورت اپنے حق کے لئے آواز اٹھاتی ہے تو اس کو طرح طرح کے القابات سے نوازا جاتا ہے، اسلام نے مردوں کی طرح عورتوں کو بھی حقِ ملکیت عطا کیا ہے، وہ نہ صرف خود کما سکتی ہیں بلکہ وراثت کے تحت حاصل ہونے والی املاک کی مالک بھی بن سکتی ہیں۔”