انیلا نایاب
تعلیمی سال شروع ہو گیا ہے۔ ایک طرف والدین کو بچوں کی کامیابی پر خوشی ہے تو دوسری جانب مہنگائی کی وجہ سے پروموشن فیس اور نئی کتابوں کی فکر بھی لاحق ہے۔
ہر کاروبار کی طرح آج کل پرائیویٹ سکولوں کا بھی سیزن چل رہا ہے۔ نیا سیشن شروع ہوتے ہی والدین کی جیبوں کو دونوں ہاتھوں سے صاف کیا جاتا ہے، ہر ایک سکول کا دعویٰ ہوتا ہے کہ ہماری تعلیم کا معیار دوسرے سکولوں سے بہتر ہے۔ ایسے میں اگر دیکھا جائے تو پرائیویٹ سکول مالکان بھی کسی ولن سے کم نہیں جنہوں نے تمام والدین کو پابند بنایا ہے کہ وہ تمام کتابیں اور یونیفارم سکول کی کینٹین یا بک شاپ (کتابوں کی دکان) سے ہی خریدیں گے۔
کتابیں سکول سے خریدیں یا بازار سے، یہ کوئی مسئلہ نہیں! اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ تمام کتابوں پر کینٹین چاچا کی مرضی کے مطابق نقلی نرخ درج ہوتے ہیں۔ کتاب کی اپنی قیمت مٹا کر اس پر اپنی مرضی کی قیمت کا لیبل لگا لیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سکول کے نام کی کاپیوں کو بھی خریدنا لازمی ہوتا ہے۔ ایک چھوٹی سی کاپی کی قیمت 150 سے 200 تک ہوتی ہے۔ اور تو اور بچے کے پاس پنسل بھی اپنے ہی سکول کی ہونی چاہیے۔
پشاور سے تعلق رکھنے والی غزالہ خود بھی جاب کرتی ہیں اور ان کے شوہر بھی سرکاری ملازم ہیں۔ ان کے گھر کی معاشی حالت کافی بہتر ہونے کے باوجود مارچ کا مہینہ ان کے لیے بے پناہ دشوار ہوتا ہے۔اور کیوں نا ہو کہ دونوں میاں بیوی کی تنخواہیں بچوں کی کتابوں، کاپیوں اور نئے داخلے میں چلی جاتی ہیں۔
آج کل یہ ٹرینڈ چل رہا ہے کہ سب نے لازمی بچوں کو کسی نجی سکول میں ہی داخل کرنا ہے۔ اوپر سے جس سکول کی جتنی زیادہ فیس ہوتی ہے اسی سکول کو سب سے زیادہ اچھا تصور کیا جاتا ہے۔ اور ادھر نجی سکولوں کا حال یہ ہے کہ وہاں پڑھائی سے زیادہ مختلف دنوں کو منایا جاتا ہے جیسے کے ریڈ ڈے، پنک ڈے، چاکلیٹ ڈے، فروٹ ڈے وغیرہ وغیرہ۔
اسی طرح حمیرا کے بھی دو بچے ایک نجی سکول میں زیرتعلیم ہیں۔ انہیں اپنے بچوں کے لئے کاپیوں کتابوں سمیت یونیفارم جوتے سب کچھ سکول سے خریدنا پڑتا ہے۔ ایک مہینہ پہلے ان کے بیٹے سے ایک کتاب گم ہو گئی، جب وہ کتاب خریدنا چاہی تو ادارے نے یہ کہا کہ کتابوں کا پورا سیٹ لینا ہو گا صرف ایک کتاب بیچنے سے پورا سیٹ خراب ہو جائے گا۔ایک کتاب خریدنے کے لیے اب پورا سیٹ لینا کہاں کا انصاف ہے۔
پرائیویٹ سکول ایسوسی ایشن تمام سکول کو پابند کرے کہ بچے جہاں سے بھی کاپی بک خریدنا چاہیں خرید سکتے ہیں، یہ بے جا پابندیاں عائد نا کریں کہ کتب ادارے سے ہی خریدی جائیں۔