خالدہ نیاز
‘کہتے ہیں ایک تصویر ہزاروں الفاظ پر بھاری ہوتی ہے، بعض اوقات کچھ تصاویر صرف ایک علاقہ ہی نہیں پوری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہیں چاہے وہ 2015 میں ترکی کے ساحل پہ ایلان کردی کی تصویر ہو یا پھر 2019 میں وسطی امریکہ کے ملک ایل سلواڈور کے ایک مہاجر اور اس کی بیٹی کی تصویر، جو محفوظ زندگی کی خاطر ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے تھے لیکن ان کا خواب سچ ثابت نہ ہو سکا اور محفوظ زندگی کی تلاش میں زندگی سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے، ان تصاویر کو دیکھنے کے بعد انسانیت انسانوں سے سوال کرنے پر مجبور ہوئی کہ میں کہاں کھو گئی اور آیا دنیا میں بسنے والے اب انسان کہلانے کے لائق بھی رہے یا نہیں؟
اس کے بعد 2020 میں بھی ایک بچے کی تصویر وائرل ہوئی جو دنیا کو یہ بتانے کے لیے کافی تھی کہ کشمیر میں کس طرح انسانیت مر چکی یا مار دی گئی ہے۔ بشیر احمد نامی شخص کو قتل کر دیا گیا تھا اور اس کا پوتا اس کی لاش پہ ماتم کر رہا تھا، یہ بچہ نہ صرف دادا کی لاش پہ ماتم کر رہا تھا بلکہ دنیا کی بے حسی کا رونا بھی رو رہا تھا کہ حکمران اپنے مفادات کی خاطر کس طرح انسانوں کی زندگیوں سے کھیل رہے اور کس طرح چھوٹے لوگوں سے ان کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں چھین رہے ہیں۔
یہ سلسلہ نہیں رکا اور شاید نہ کبھی رکے گا، افغانستان کے حالات ہمارے سامنے ہیں، پاکستان کے قبائلی اضلاع کی ویرانیاں ہم کیسے بھول سکتے ہیں اور اب باری آئی ہے یوکرائن کے عوام کی۔ کچھ تصاویر وائرل تو نہیں ہوتیں لیکن وہ بہت کچھ کہہ جاتی ہیں۔
آج صبح دفتر آتے وقت ایک سٹیٹس پہ یوکرائن کی ایک تصویر دیکھی جس میں کیا دیکھا بس روتے بلکتے بچے، خوفزدہ مائیں اور مرجھائے ہوئے چہرے، جو نہ تو اپنے گھر بار کو چھوڑنا چاہتے ہیں اور نہ ہی اپنوں کو کھونا چاہتے ہیں لیکن وہ کر بھی کیا سکتے ہیں؟ زیادہ سے زیادہ احتجاج! اور اگر کریں گے بھی تو کیا ہو گا؟ ان کو چپ کرا دیا جائے گا یا پھر افغان مہاجرین کی طرح یوکرائن کے عوام بھی در بدر ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو جائیں گے بلکہ ہزاروں افراد بے گھر ہو بھی چکے ہیں کیونکہ جنگ تو چھڑ چکی ہے اور پتہ نہیں آگے کیا ہو گا؟
جنگ چاہے دنیا کے جس کونے میں بھی ہو اس کے اثرات پوری دنیا پر ہوتے ہیں کیونکہ جنگ میں تباہی اور بربادی کے علاوہ کچھ نہیں رکھا، جنگ کا کوئی نتیجہ بھی نہیں نکلتا۔ اگر نہیں مانتے تو افغانستان کی مثال ہم سب کے سامنے ہے۔ افغانستان میں چالیس سال تک لڑائی جاری رہی جس میں ہزاروں بے گناہ افراد مارے گئے، کئی خواتین کو بیوہ تو کئی بچوں کو یتیم کر دیا گیا، گھروں کو اجاڑ دیا گیا لیکن پھر کوئی نتیجہ نکلا نہیں، آج افغانستان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، وہاں طالبان کی حکومت قائم تو ہے لیکن ملک کا نظام درہم برہم ہو چکا ہے، ہزاروں افراد افغانستان سے جا چکے ہیں اور جو ہیں وہ بھی اسی کوشش میں لگے ہیں کہ کسی نا کسی طرح اپنے ملک سے نکل جائیں، خواتین اور بچے سردی میں ٹھٹھرتے پھر رہے ہیں، خواتین کو اپنے بنیادی حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے۔
کچھ روز سے میں یوکرائن کے حوالے سے مختلف چیزیں پڑھ اور دیکھ رہی ہوں، یوکرائن کے عوام چیخ چیخ کر دنیا سے التجا کر رہے ہیں کہ ان کو اپنے ملک میں رہنے دیا جائے، دنیا کے طاقتور ملکوں سے درخواست کر رہے ہیں کہ ان کو جینے کا حق دیا جائے، جنگ بندی کی جائے لیکن ان کو کیا وہ تو مزے سے اپنے ملکوں میں حکمرانی کر رہے ہیں۔
گھر اور ملک چھوڑنا کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے اس کا پتہ صرف ان لوگوں کو چل سکتا ہے جو خود بے گھر ہوئے ہوں، یوکرائن کے عوام کا دکھ بڑے بڑے ایوانوں میں بیٹھے حکمران شاید اس طرح سے محسوس نہ کر سکیں جس طرح کشمیر، شام اور افغانستان کے عوام محسوس کرتے ہیں۔
پیوٹن کی اپنی ترجیحات اور مفادات ہوں گے لیکن اپنے لوگوں کی بہتری کے لیے دوسرے لوگوں کو بے گھر کرنا اور ان سے نوالہ چھیننا کہاں کا انصاف ہے؟ دنیا بہت ساری جنگیں دیکھ چکی، اب مزید اور جنگوں کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
پتہ نہیں وہ کون سا دن ہو گا جب آنکھ کھلے اور ہر طرف امن ہو، جب آنکھ کھلے تو روتے بلکتے بچوں کی تصاویر کی بجائے ہنستے مسکراتے بچے دیکھنے کو ملیں، جب اسلحے کی بجائے پھول دیکھنے کو ملیں، جب خوفزدہ چہروں کی بجائے پراعتماد اور زندگی سے بھرپور انسان دیکھنے کو ملیں، جب انسانیت کی قدر دیکھنے کو ملے، جب ہر طرف سکون ہو اور کہیں بھی دہشت گردی ہو نہ مفادات کی جنگ ہو نہ طاقت کا نشہ اور نہ ہی دوسروں کے منہ سے نوالہ چھیننے کی رسہ کشی ہو۔ مجھے بذات خود اس دن کا بڑی شدت سے انتظار ہے جب دنیا صحیح معنوں میں دنیا ہو، جہنم کی کوئی شکل نہ ہو۔