میں سوچتی ہوں اگر یہ ماں کے ہاتھ کا آخری ناشتہ ہوا تو؟
سدرا آیان
زندگی انسان کو ہر وہ رنگ دکھاتی ہے جسکا اس نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا ہے، کہتے ہیں کہ جو مٹی انسان کو بنانے کے لیے گوندھی گئی اس مٹی پر سفید بادلوں کے اور کالے بادلوں کی بارش ہوئی سفید کا مطلب خوشیاں اور کالے بادلوں کا مطلب غم ،اسکے بعد اس مٹی سے انسان کو بنادیا گیا۔جسکے بعد ہر انسان کی زندگی میں خوشیاں اور غم دونوں شامل کیے گئے۔
ہم پر اگر کوئی مشکل آئے تو ہم سمجھتے ہیں کہ ہم جتنا پریشان کوئی نہیں ہے، ہر دوسرے ہنستے ہوئے انسان کو ہم رشک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہوتے ہیں بنا یہ جانے کہ وہ ابھی کس پریشانی سے نکل آیا ہے یا کس پریشانی میں مبتلا ہونے والا ہے۔
کبھی کبھار میں سوچتی ہوں کہ ایک وقت تھا میرے ماں باپ صحیح سلامت اور صحت مند تھے، جوان تھے لیکن مجھے اسکا کوئی احساس نہیں تھا کیونکہ میں بچی تھی ، اب انھیں دیکھ کر اندر ہی اندر سے مجھے یہ غم کھائے جارہا ہے کہ وہ اب جوان نہیں رہے ، صحت مند نہیں رہے، کئی بیماریوں نے انھیں گھیر لیا جس سے وہ چھٹکارا نہیں پا سکتے اب۔ آئے روز انھیں کسی نہ کسی تکلیف کا سامنا کرنا ہوتا ہے اور انہیں تکلیف میں دیکھ کر میں بھی سکون سے نہیں رہ پاتی۔
بعض اوقات کوئی مسلئہ آجائے تو ہم اُس مسئلے کو اپنی پوری زندگی پر حاوی کر دیتے ہیں۔ پتہ نہیں ہم کیوں سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ کوئی بھی مسئلہ ہماری پوری زندگی نہیں ہوتا ،صرف زندگی کا ایک حصہ ہوتا ہے لیکن پھر بھی ہم اپنے سارے کام کاج چھوڑ کر اس مسلئے کو زندگی کا روگ بنا کر روتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم ہی کے ساتھ کیوں؟ ہمیں اس لیے لگتا ہے کہ یہ پریشانی صرف ہمیں ہی گھیرے ہوئے ہیں کیونکہ ہمیں دوسروں کی زندگیوں کا پتہ ہی نہیں ہوتا کبھی کبھار راستے میں چلتے ہوئے اکثر سوچ میں پڑ جاتی ہوں ، جو بندہ بھی سامنے سے گزر رہا ہوتا ہے کہ ابھی اگر میں اس سے پوچھ لوں تو مجھے پتہ چل جائیگا کہ اسکو کتنی پریشانی ہے ، کسی بھی بوڑھے آدمی پر نظر پڑھے تو اسکی پریشانیاں اور محنت تو مجھے اسی وقت سمجھ میں آ ہی جاتی ہے کیونکہ میرے والد کی زندگی میرے سامنے کسی فلم کی طرح چلنے لگتی ہے۔ اپنی پریشانی تو دور کی بات ان لوگوں کے لیے بھی میں درد محسوس کرنے لگتی ہوں جو مجھے راستے میں نظر آئے اور جنکی صورت حال پر میرا ذہن سوچنے لگتا ہے۔
جس لکیروں والے ماتھے پر بھی مجھے پسینہ دِکھے ، آنکھوں میں اکتاہٹ ، پریشانی یا تھکاوٹ دِکھے تو میرا ذہن فرضی کہانیاں بُننے لگتا کہ اسکی زندگی کتنی پیچیدگیوں سے بھری ہوگی۔
پتہ نہیں میں کیوں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایسا تو نہیں ہے کہ دنیا میں کوئی بھی انسان خوش نہیں ہے، بہت سے لوگ اپنی زندگیوں میں بہار لیے گھومتے ہیں ۔ مجھے انکی خوشیاں کیوں نہیں دکھائی دیتی۔ شائد میرے ذہن پر ڈر ، خوف و ہراس اتنا حاوی ہوگیا ہے کہ زندگی کے رنگ مجھے نہیں دِکھتے مجھے صرف بلیک اینڈ واہئیٹ دِکھنے لگا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے ایسا تھا کہ صبح اٹھتے ہی میری نظر سب سے پہلے کچن میں ناشتہ بناتی ہوئی میری ماں پر پڑتی تھی ، گھر کے سب افراد سوئے رہتے اک وہ تھی جو وقت سے پہلے ہمارے لیے اٹھ جاتی ، (کیا کوئی اور بھی اتنا کیئر کرنے والا ہوتا ہے؟) میں کئی لمحے انھیں میٹھی نظروں سے دیکھتی ، مائیں تو بیٹیوں کو دعائیں دیتی رہتی ہے لیکن میں بیٹی ہوکر میرے دل سے ماں کے لیے دعا نکلتی ، بہت پیار آتا ان پہ ، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس پیار کی جگہ ڈر نے لے لی مجھے ماں کی توجہ سے خوف آنے لگا ، میں سوچتی کہ اگر یہ ماں کے ہاتھ کا آخری ناشتہ ہوا تو؟ اگر کل میری آنکھ کھلی اور میں کچن میں ماں کو نہ پاؤں تو؟
میں نہیں چاہتی تھی کہ وہ میرے لیے الگ اور میرا پسندیدہ کھانا بنا کر دے ، وہ میرے لیے چائے بنا کر لاتی تو میں اتنی ڈسٹرب ہوجاتی کہ میرا کام سے دھیان بھٹ جاتا ، مجھے لگا مجھے انکا پیار نہیں چاہیے تھا ، مجھے اپنے فادر کے ساتھ وہ گھنٹوں گپ شپ اور گفتگو سے ڈر لگنے لگا تھا مجھے اپنے منگیتر کا بے حد اچھا رویہ چبھنے لگا تھا میں نہیں چاہتی تھی کہ کوئی مجھ سے اچھا رویہ رکھے ، میرا خیال رکھے ، مجھے کسی کی محبت نہیں چاہیے تھی ، مجھے ان سب چیزوں کا عادی نہیں ہونا تھا میں نہیں چاہتی تھی کہ مجھے ان سب کی عادت پڑ جائے ، کہا جاتا ہے کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ہر انسان کا ہمارے پاس آخری دن ہوتا ہے اور ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا کہ کس کا کونسا دن ہمارے ساتھ آخری دن ہوگا۔
مجھے اگر کچھ اچھا لگتا تو اپنے کمرے میں ٹہرنا ، بند دروازہ ، بجھی بتی ، مجھے حتٰی کہ باہر روشنیوں سے ڈر لگنے لگا تھا ، مجھے ایسا لگا جیسے میں اپنی زندگی کی روشنیاں کھو رہی ہوں ۔ میں نے خود کو روشنیوں سے بھی دور کیا تھا کیونکہ مجھے ڈر تھا کہ میں ان روشنیوں کو کھو نہ دوں ، مجھے یہاں ایک شعر یاد آیا
”احساس بڑھا دیتا ہے ہر درد کی شدت
جتنا محسوس کروگے کسک اور بڑھے گی”
کسی کے والدین کی فوتگی کا سن کر میری ایسی حالت بگڑ جاتی جیسے خدا نخواستہ میں نے اپنے والدین کو کھو دیا ہو ، کسی کی محبت ادھوری رہ جاتی تو انکے ساتھ میں خود اتنا روتی جیسے اپنی محبت کھوئی ہو۔
شکیب جلالی کہتے ہے "دیکھ کر اپنے در و بام لرز جاتا ہوں
میرے ہمسائے میں جب بھی کوئی دیوار گرے ”
اس طرح میں لوگوں کے غم جھیلنے لگی تھی ، وہ حادثے جو کبھی زندگی میں نہیں آئے ان حادثوں کو سوچ سوچ کر میں نے اپنی حالت بگاڑ رکھی تھی۔ تب ٹی این این نے ایک سائیکالوجسٹ کو ہائیر کیا انکے ساتھ سیشنز لیے ۔ ابنارمل کی ڈائری(کتاب) کے مطابق سائیکالوجسٹ سسکتی ہوئی روحوں کو سینے کا فن جانتے ہیں وہ لاشوں کا علاج بھی کرتے ہیں ،وہ (زندہ) لاشیں جو کسی کی درخواست پر جاکر سائیکالوجسٹ کے سامنے بیھٹتی ہیں۔
مجھے نہیں پتہ اعمارہ اقبال (نے کیسے مجھے اس تاریکی میں ڈوبے کمرے سے نکالا لیکن نکال ہی لیا)۔ میرا ذہن اتنا کام کرنے لگا کہ میں کس غم کو دل سے لگائے پھر رہی ہوں؟ مجھے تو خوش ہونا چاہیے کہ میں وہ خوش قسمت لڑکی ہوں جسکا ہر پسندیدہ رشتہ اسکے پاس ہے ، ماں ، باپ ، دوست ، اچھے ٹیچرز ، اچھے کولیگز ،سوچوں تو آس پاس ہر بندہ کتنا اچھا اور یونیک ہے۔
اس دوران میں نے شائد کچھ میرے پسندیدہ ترین لوگوں کو کھو بھی دیا،زندگی گزر رہی تھی انکے ساتھ بھی ، زندگی اب بھی گزر رہی ہے انکے بغیر بھی ! لیکن دل میں جو جگہ تب تھی وہ ہمیشہ رہے گی۔ میں اب بھی ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتی ہوں۔
باقی تو ڈر اب بھی لگتا ہے اتنا زیادہ خیال رکھنے والے والدین کو دیکھ کر ، اتنا بے حد زیادہ محبت،عزت اور خیال رکھنے والے منگیتر کو دیکھ کر ، ہر قدم پر ساتھ دینے والے رشتوں کو دیکھ کر ، لیکن ساتھ میں میں نے دل سے یہ قبول کیا ہے کہ عارضی طور ہی سہی لیکن میرے نصیب میں وہ ساری خوشیاں ہیں ،وہ سب رشتے ہیں جو کوئی پیسوں سے بھی نہیں خرید سکتا ، اور یہ سب پاکر میں خود کو بہت امیر محسوس کررہی ہوں۔
اب بھی مجھے احساس ہے کہ وقت آنے پر ان سب رشتوں کو میں کھو دونگی لیکن میں اس حقیقت کو بھی مانتی ہوں کہ دنیا ایک کھیل ہے جسے کبھی نہ کبھی ختم ہونا ہی ہے ، میں نے اپنے آپ کو سمجھا کر زندگی سے یہ سمجھوتا کر لیا کہ وقت آنے پر میں رشتے کھو دوں بدلے میں اور رشتے میری زندگی میں آئینگے ، ویسے بھی میں نے دنیا کی ہر خوشی دیکھ لی ہے ، اپنی عمر سے زیادہ خوشیاں ، مجھے کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے کہ آگے کی زندگی جیسے بھی ہو کیونکہ مجھے لگتا ہے میں اپنے حصے کا جی چکی!