وہ لڑکی جسے کتابوں کے سوا کچھ نہیں چاہیے!
سدرہ ایان
کہا جاتا ہے کہ دوست وہ ہوتا ہے جو کچھ بول بھی نہ رہا ہو لیکن صرف آپ کے پاس بیٹھا ہو اور آپ کو اس سے خوشی ملے۔ لیکن بندہ ایسا دوست لائے کہاں سے جو چوبیس گھنٹے حاضر ہو، جو کسی بھی وقت ہماری تنہائی دور کرے اور ہم سے باتیں کرے۔
میں نے زندگی میں صرف ایک دوست ایسا پایا ہے جو مجھے لوگوں کے قصے سناتا ہے، مجھے دنیا کے حسین ترین مناظر دکھاتا ہے، جو رات گئے تک حتٰی کہ جب تک میں سو نہ جاؤں مجھے محبتوں کی داستانیں سناتا ہے، قدیم زمانہ جو میں نے نہیں دیکھا، وہ دکھاتا ہے، دنیا کے دوسرے ممالک جہاں میں کبھی نہیں گئی ان کی ثقافت، ان کی خوبصورتی کا بتاتا ہے، بہت سی ایسی چیزیں سکھاتا ہے جو کبھی کسی استاد نے نہ سکھائیں، ہنساتا بھی بہت ہے اور میرے ذہن میں ایک ایسی دنیا کو جنم بھی دیتا ہے جو میں اپنے اصولوں سے چلاؤں۔ چلیے اور انتظار نہیں کرواتی بتا ہی دیتی ہوں کہ میرا یہ بہترین ساتھی اور دوست کوئی اور نہیں بلکہ کتاب ہے۔
کتابوں میں بھی پھر اقسام ہوتی ہیں، ایک قسم وہ ہوتی ہے جو آپ کو معلومات دیتی ہے چاہے وہ کسی بھی فیلڈ کی ہوں، ایک قسم یہ بھی ہوتی ہے جو آپ کو انٹرٹین کرتی ہے، ناولز کے ذریعے، افسانوں اور شاعری کے ذریعے پھر سب سے مشہور قسم، تعلیمی دنیا کے کورس کی کتابیں ہوتی ہیں جنہیں کھول کر ناولینز کی سانسیں رک اور دل خراب ہو جاتے ہیں، انہی ہستیوں میں سے ایک میں بھی ہوں!
میں نے اپنی زندگی میں بہت سے ناولز پڑھے ہیں اور میں شائد ان لڑکیوں میں سے ہوں جو ناول پڑھنے کے ساتھ ساتھ اسے سمجھتی بھی ہوں تب ہی نمرہ احمد کی لکھی ہر دوسری لائن پر دل کھول کر ایسے واہ کرتی ہوں کہ ساتھ بیٹھی میری بڑی بہن اپنے کام سے اور چھوٹی بہن ڈائجسٹ سے سر اٹھا کر مجھے دیکھ لیتی ہے اور ان کے کچھ کہنے سے پہلے ہی میری دوسری واہ کا ٹائم آ چکا ہوتا ہے۔
ایک وقت تھا جب میں سکول سے ڈائجسٹ لا لا کر پڑھتی تھی، ان میں اچھے اچھے افسانے ہوتے تھے۔ پھر افسانے چھوڑ کر میں ناولز پڑھنے لگی اور پھر ایک قسط والا ناول مجھے بور کرنے لگا تو جو سلسلہ وار ناولز ہوتے تھے آخر میں وہ ایک کتاب کی شکل میں شائع ہوتے اور کافی مہنگے ہوتے تھے اور اب اور بھی مہنگے ہوتے ہیں لیکن ایسا تھا کہ میری الماری میں کپڑوں سے زیادہ کتابیں پڑی ہوتی تھیں۔ ایک دن میری بڑی بہن گئی اور دکان دار چچا سے، جن سے بہت سی کتابیں لے لے کر اچھی سلام دعا تھی، یہ شکایت کی کہ آپ میری بہن کو اور کتابیں نہ بیچیں کیونکہ گھر میں جس جگہ دیکھو کتاب دھری ہے، ہماری چیزوں کے لیے ہی جگہ کم پڑ گئی ہے۔
”ہمیں زندگی جینے کے لیے روٹی، کپڑے اور بہت چیزوں کی ضرورت ہے لیکن اس لڑکی کو صرف کتابوں کی ضرورت ہے اسے اور کچھ نہیں چاہئے، آخر اس میں لکھا ہی کیا ہے اتنا خاص؟” ماں جی کی یہ باتیں پڑ گئیں والد صاحب کے کانوں میں۔ تب ایسا تھا کہ ہمارے گھر میں ایک ٹی وی تھا اور ایک سادہ موبائل جس میں سانپ گھمانے کا موقع مشکل سے ملتا، ریڈیو کا بھی کانسپٹ نہیں تھا کیونکہ ریڈیو پر تو گانے چلتے ہیں۔ تب ڈائجسٹ کو ایک غلط سوچ کے ساتھ جج کیا جاتا تھا۔ ان میں انہیں لو٘ سٹوریز پر اعتراض ہوتا تھا، انہیں ل٘و سٹوریز تو نظر آتی تھیں لیکن سٹارٹ میں حمد، نعت، احادیث نہیں!
ایک دفعہ میں نمرہ احمد کی ایک بہت اچھی کتاب ”نمل” پڑھ رہی تھی کہ بھائی نے اعتراض کیا، میں کتاب اٹھا کر پاپا کہ پاس گئی اور جب کتاب دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر کھول کر دکھائی تو ان کی نظر اس میں لکھے قرآنی آیت پر پڑی، (میں نے اطمینان کا سانس لیا) کچھ اور ورق پلٹے تو گھرداری کے طریقے تھے، (جسے میں پڑھتے وقت مکمل سکپ کر جاتی تھی) تب میں نے سب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا ”اس بار میں ناول پڑھنے پر اعتراض بالکل نہیں چاہتی۔” اور شائد وہ وقت تھا جس کے بعد سے ڈائجسٹ، ناولز اور شاعری کو کوئی بھی چھپ کر نہیں پڑھتا۔
بذات خود مجھے کتابوں سے بہت محبت ہے، خاص کر اردو ناولز سے، اور پھر جو خواتین رائٹرز نے لکھے ہوں ان کی تو بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ مرد حضرات میں بھی ہیں اچھے اچھے لکھاری لیکن یقین جانیے میرے نزدیک خاتون رائٹر ہر چیز کو جتنی خوبصورتی سے لفظوں کا لبادہ پہناتی ہے چاہے وہ کسی فرضی کردار کے حسن کو بیاں کرنا ہو، چاہے وہ کسی کردار کے سگریٹ اور دھوئیں کی تصویر دکھانی ہو، چاہے وہ کسی ٹوٹے دل کے احساسات کو بیان کرنا ہو یا پھر اس ٹوٹے دل والے انسان کی آنکھوں سے گرتے بوندوں کو لفظوں میں قید کرنا! شائد کسی مرد کی فلم یا ڈرامے میں آپ کو وہ حسن اور وہ کشش نہ دکھے جو آپ کو کسی خاتون کی لکھی گئی کتاب میں یا کسی کہانی میں ملے۔
آج کل کچھ ڈرامے ایسے ہیں جو ناولز کو لے کر بنائے گئے ہیں اور میں اس بات کے خلاف ہوں کیونکہ کوئی بھی ڈائریکٹر کسی بھی ڈرامے میں وہ حقیقی مناظر، وہ احساسات، وہ محبت، وہ اٹریکشن اور وہ حسن نہیں لا سکتا جو ایک لکھاری اپنے قلم سے لکھتا ہے۔ اور ڈرامے کا تو اتنا مزہ بھی نہیں ہوتا کیونکہ ڈائریکٹر ایک حد کی خوبصورتی ہمیں دکھاتے ہیں جبکہ کتاب میں لکھی گئی خوبصورتی کو ہم اپنی سوچ کے مطابق سوچ رہے ہوتے ہیں۔ سکرین پر تو دیکھ کر ہمیں اندازہ ہو ہی جاتا ہے کہ اس کردار کی سادگی میں کتنی خوبصورتی ہے جبکہ کتاب میں سادگی کی خوبصورتی کو پڑھ کر ہمارا ذہن جتنی خوبصورتی سوچنے کا اہل ہوتا ہے، جتنی خوبصورتی شوخ ہو سکتی ہے، جتنی خوبصورتی ڈِسکَوَر کر سکتا ہے ہمیں سب کچھ اتنا ہی حسین نظر آتا ہے۔ سو سکرین پر ایک ”لِمِٹ” میں چیزوں کو دکھایا جاتا ہے جبکہ کتابوں میں پڑھ کر ہم اپنی مرضی کی خوبصورتی دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
ایک بہترین لکھاری کی ایک کامیاب تحریر وہ ہوتی ہے جس میں انسان کو اپنی کہانی نظر آئے۔
میرا ماننا ہے کہ ناولز انسان کی شخصیت کو نکھارنے کا ہنر رکھتے ہیں کیونکہ جب ہم ”چے تالیہ” (شہزادی تاشہ یعنی تالیہ مراد) کو پڑھتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ ایک طلاق یافتہ لڑکی ایک کامیاب زندگی کیسے گزار سکتی ہے، کیسے اسے اپنے پلانز پر یقین ہوتا ہے اور وہ کیسے خود کو اتنا حسین اور سمارٹ بنائے رکھتی ہے۔ حیا سلیمان کو پڑھتے ہیں تو دیکھنے کو ملتا ہے کہ کس ”سٹرگل” کے بعد وہ پڑھائی کرنے ترکی گئی، اسے استنبول میں کیسے کیسے حادثے پیش آئے اور ثقافت کو بھلانے کی بجائے (جس کا اس کے خاندان کو ڈر تھا) گئی جینز میں اور واپس برقعے میں آئی۔ ایک حنین جو ہیکنگ ماسٹر ہے کو پڑھ کر پتہ چلتا ہے کہ کیسے اس نے خود اس عشق سے نجات حاصل کی جو اس کے خاندان کو برباد کر دیتا، شائد بہت سی لڑکیاں خود کو ایسی محبت سے باہر لائی ہوں جس کا نتیجہ صرف خسارہ تھا۔
وان فاتح جس کو یقین ہوتا ہے کہ جو ہمیں کرنا آتا ہے وہ ہماری جان بچاتا ہے، اک عائشے گل جو سمجھتی ہے کہ ہم اس وقت تک دوسروں کی بات نہیں سمجھ سکتے جب تک ہم ان کی جگہ پر کھڑے نہ ہوں، اک جہان سکندر جس نے اپنی منگیتر (حیاء سلیمان) کی ڈانس ویڈیو ڈیلیٹ کرنے کے لئے ساری دنیا کے کمپیوٹرز ہیک کر لئے تھے، استنبول میں ہر گام پر گرتی ہوئی حیاء سلیمان کو کیسے تھام لیتا تھا اور کیسے اس کی ہر غلطی کا ازالہ کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ ایک ہاشم کاردار جو کہ اپنی فیملی کو بچانے کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے، کچھ بھی!
ایسے بہت سے کردار ہیں جو کہ آئیڈیل ہیں لیکن ہم اگر چاہیں تو انہیں وجود دے سکتے ہیں۔ ہم ان تمام مثبت کرداروں میں اگر خود کو کسی حد تک بھی ڈھال کر وہ چیزیں اپنی عادات بنا لیں تو ہماری شخصیت بھی نکھر جاتی ہے، ہمارے الفاظ کا چناؤ دلکش بن جاتا ہے، ہم جب ان کتابوں کو پڑھتے ہیں تو اپنے گردوپیش کو بھول جاتے ہیں خاص کر سردیوں کی راتوں میں، چائے کا کپ ہاتھ میں لے کر جب ایک انسان چراغ کی زرد سی روشنی میں کتاب پڑھتا ہے تو وہ اس میں اتنا کھو جاتا ہے کہ اپنی ذات تک کو بھول جاتا ہے۔
کس نے دھوکہ دیا، کس کے الفاظ نے آپ کو ہرٹ کیا، کس مجبوری کے تحت کسی فنکشن میں نہیں گئے، دوستوں کے ساتھ ٹرپ پر جانے کی اجازت نہیں مل سکی۔۔ کتابوں میں کھو کر انسان اپنا کوئی بھی غم بھول جاتا ہے، اپنا کوئی بھی دکھ بھلا بیٹھتا ہے اور شائد بہت سی برائیوں سے بھی بچ جاتا ہے، جن میں دوسروں کی برائی کرنا سرفہرست ہے۔ میرے نزدیک بہترین دوست کتاب ہے، بہترین تحفہ کسی کو کتاب دینا ہے کیونکہ کتابیں دھوکہ نہیں دیتیں، آپ کو برا وقت نہیں دیتیں، آپ کو چھوڑ کر نہیں جاتیں، کبھی آپ کو اگنور نہیں کرتیں اور اپنے لفظوں سے آپ کو روشنی تو دیتی ہیں لیکن آپ کو ہرٹ نہیں کرتیں!