”تین بچوں کا باپ ہوں صرف دوستی کرنا چاہتا ہوں”
انیلا نایاب
خواتین کو صرف گلی کوچے کے نکمے یا آوارہ لڑکے ہی ہراساں نہیں کرتے بلکہ قانون کے رکھوالے یا اعلیٰ عہدوں پر فائز، سفید پوشی کا لبادہ اوڑھنے والے بھی، بلاجھجک، یہ حرکتیں کرتے ہیں۔
تعلیم یافتہ اور اعلیٰ عہدے داروں کو خواتین کو ہراساں کرتے ہوئے نا صرف سنا اور دیکھا ہے بلکہ بھگتا بھی ہے۔
جہاں بھی جاؤ، خواہ کسی بھی کام سے تو فون نمبر درج کرنا لازمی ہو گیا ہے چاہے بنک ہو، تعلیمی ادارے ہوں یا محمکہ صحت، ذاتی کوائف درج کرنا ہوتے ہیں۔ ہر ذمہ دار ادارہ یا تو خواتین کی ذاتی معلومات نا لے اور اگر بہت ہی ضروری ہے تو ان کا تحفظ بھی یقینی بنائیں۔
میں اگر اپنی بات کروں تو جب کورونا ویکسین کے لئے پشاور کے ایک ڈسپنسری جانا ہوا تو ویکسین لگانے کے ساتھ میرا نمبر بھی درج کر لیا گیا۔ رات کو ایک نمبر سے مسیجز آئے، صبح اپنی بہن سے بات شیئر کی تو میری بہن نے بتایا کہ اسی نمبر سے تو رات کو مجھے بھی کافی میسجز موصول ہوئے ہیں۔ یہ بندہ خود کو ڈاکٹر بتاتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ مجھے آپ پہلی نظر میں اچھی لگنے لگی ہو اور یقیناً آپ بھی مجھے پسند کرتی ہوں گی۔ حالانکہ وہاں اتنے لوگ تھے، یاد بھی نہیں کہ کون سا نمونہ تھا۔
ان جملوں کو پڑھنے کے بعد غصے کے ساتھ ساتھ افسوس بھی ہو رہا تھا۔ نمبر تو بلاک ہو جاتا ہے لیکن ان جگہوں پر جانا بھی خواتین کے لیے غیرمحفوظ ہے جہاں پر جانا لازم یا مجبوری ہے۔
ہر جگہ موبائل نمبر دینا لازمی ہوتا ہے لیکن الٹا پھر آپ کو موبائل نمبر کی وجہ سے لوگ ہرا ساں کرتے ہیں، جو کبھی کبھار ایک مصیبت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
پشاور شہر کے ایک سرکاری سکول کی استانی شمیم (فرضی نام) کے مطابق ان کا امتحانی بل تاخیر کا شکار تھا۔ اس کے لئے انہوں نے اپنی دوست سے بات کی، انہوں نے بورڈ کے ایک بندے کا نمبر دیا کہ ان سے رابطہ کر کے اپنے چیک کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔ جب رابطہ کیا گیا تو بورڈ کے اہلکار نے بتایا کہ دو دن میں چیک مل جائے گا۔ لیکن اس دن کے بعد سے انہیں روزانہ کی بنیاد پر پیغامات آنے لگے۔ کبھی بے ہودہ قسم کی شاعری تو کبھی بے ہودہ لطیفہ! چونکہ بل کا مسئلہ ابھی حل نہیں ہوا تھا تو نمبر بلاک بھی نہیں کر سکتی تھیں۔ ایک دن ایک پیغام ملا کہ "میں آپ کی تصویر دیکھنا چاہتا ہوں، مجھے آپ سے محبت ہو گئی ہے، اور میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔” استانی کے مطابق وہ طیش میں آ گئیں اور کہا کہ میں شادی شدہ ہوں تو پشاور بورڈ کے اہلکار کی طرف سے پیغام ملا، ”میں خود بھی 3 بچوں کا باپ ہوں، میں تو آپ سے دوستی کرنا چاہتا ہوں تاکہ میرا وقت اچھا گزرے۔”
”وہ دیکھو تھماری دادی جا رہی ہے۔” یہ کہنا تھا ایک عمررسیدہ آدمی کا جس کی گود میں ایک چھوٹا بچہ تھا اور یہ جملہ اسے کہتے ہوئے میں نے اس وقت سنا جب میں اپنی بہن کے ساتھ راستے جا رہی تھی۔ آج تک میں یہی سوچتی ہوں کہ وہ جملہ میرے لیے تھا یہ پھر میری بہن کے لیے؟
مرد خواتین کو مختلف طریقوں سے ہراساں کرتے ہیں خواہ وہ موبائل پر میسج کی صورت میں ہو یا پھر راہ چلتی ہوئی خاتون سے بلاواسطٰہ مخاطب ہو کر۔
ہر موقع پر معاشرہ صرف خواتین پر انگلی اٹھاتا ہے کہ کس طرح کا لباس پہنا ہے، چادر کیسے لی ہے، شام کا وقت ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور ساتھ میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خواتین ہی مردوں کو ہراساں کرنے کا موقع دیتی ہیں۔ کچھ درندہ صفت انسان تو دو سال کی بچی یا بچے کو بھی نہیں چھوڑتے، تو کیا اس دو سال کی بچی یا بچے نے اس درندہ صفت انسان کو موقع دیا تھا یا وہ چھوٹی بھی بچی بھی ٹھیک لباس نا ہونے کی وجہ سے ”شکار” بن جاتی ہے؟