کرناٹک کی مسکان کا اللہ اکبر، مقصد شہرت یا کچھ اور؟
خالدہ نیاز
مسکان نامی لڑکی جو کل تک گمنام تھی آج پوری دنیا میں اس کے چرچے ہورہے ہیں کوئی اس کو شیرنی کے نام سے پکار رہا ہے تو کوئی اس کی ہمت اور بہادری کو داد دے رہا ہے، وجہ ہے طاقت کے سامنے ڈٹ جانا اور اپنے حق کے لیے آواز اٹھانا۔ مسکان واقعی داد کی مستحق ہے کیونکہ اس نے جس بہادری کا مظاہرہ کیا ہے وہ ہم میں سے بہت کم لوگ کرپاتے ہیں۔
مسکان نے حجاب پرپابندی کے خلاف آواز اٹھائی ہے کہ محض ایک حجاب کی بنا پر اس کو اور اسکی باقی مسلمان ساتھیوں کو تعلیم سے محروم کیا جارہا ہے جو زیادتی ہے کیونکہ بحیثیت مسلم لڑکی حجاب پہننا اس کا حق ہے اور اس کو یہ بھی حق حاصل ہے کہ وہ جس طرح لباس پہننا چاہے پہن سکتی ہیں لیکن مذہبی انتہاپسند سوچ مسکان کو اپنی مرضی سے جینے کا حق بھی نہیں دے رہی۔ گزشتہ روز سے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہے جس میں ہندوستان کی ریاست کرناٹک کی مسکان نے انتہا پسند ٹولے کو نہ صرف کرارا جواب دیا بلکہ انکے نعروں کے جواب میں اللہ اکبر کا نعرہ بھی بلند کیا۔ حجاب پر نہ صرف انڈیا میں پابندی عائد کی گئی ہے بلکہ کئی یورپی اور مغربی ممالک میں بھی حجاب پر پابندی عائد ہے۔
دنیا بہت آگے جاچکی ہے، لوگ تعلیم یافتہ ہوچکے ہیں مگر افسوس ان سب کے ساتھ مذہبی انتہاپسندی بھی اپنے عروج کو پہنچ چکی ہے ہم اپنے مذہب کے علاوہ کسی دوسرے مذہب کے عقائد ماننے کو تیار ہی نہیں ہے۔ انتہا پسندی کی یہ سوچ صرف ایک ملک یا خطے تک محدود نہیں ہے بلکہ ہرملک میں کسی نہ کسی صورت موجود ہے۔
ویسے تو مذہب کے نام پر بہت زیادہ انتہاپسندی کے واقعات رونما ہوچکے ہیں لیکن ان میں سے چند کا ذکر کرنا چاہوں گی۔ پاکستان میں ہم مذہب کے نام پرمشال خان اور سری لنکن منیجر پریانتھا کمارا کو مار چکے ہیں جبکہ نیوزی لینڈ میں 2019 میں 49 افراد مذہبی انتہاپسندی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں جن کو حملہ آور نے مسجد کے اندر قتل کیا۔ انڈیا میں بھی عرصہ دراز سے مذہبی انتہا پسندی عروج پر ہے کبھی کسی مسلمان کو گائے کا گوشت کھانے پر سزا دی جاتی ہے تو کبھی حجاب پہننے پر پابندی عائد کی جاتی ہے۔
آج ہر کوئی اس باحجاب لڑکی کے گُھن گا رہا ہے لیکن کیا ہم نے سوچا ہے کہ یہ لڑکی کیوں بولنے پر مجبور ہوئی؟ شاید اس لیے کیونکہ اس سے اس کا بنیادی حق چھینا جارہا ہے۔ کل تک سب لوگوں کو اس حوالے سے پتہ بھی نہیں تھا کہ انڈیا کی ریاست کرناٹک میں کیا ہورہا ہے؟ یہ کل کی بات نہیں ہے بلکہ گزشتہ کئی ماہ سے کرناٹک میں حجاب پر پابندی کے خلاف مسلمان طالبات اپنی آواز بلند کررہی ہیں لیکن انکی آواز سننے والا کوئی نہیں تھا اور مسکان کی صورت میں انکو آواز مل گئی جو اب پوری دنیا تک پھیل چکی ہے۔ کئی مواقعوں پر دیکھا ہے کہ حجاب کو دہشت گردی سے جوڑا جاتا ہے لیکن آج یہی حجاب مذہبی انتہاپسندی کے خلاف زور زور سے آواز دے رہا ہے۔
بات یہاں بھی ختم نہیں ہوتی، مانا کہ سوشل میڈیا میں بہت طاقت ہے جو کسی انسان کو راتوں رات شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے میڈیا کی زینت بھی بنا دیتا ہے لیکن کچھ روز گزرنے کے بعد معاملہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے اور مجھے ڈر ہے کہ مسکان کےا قصہ بھی یہاں ختم نہ ہوجائے کیونکہ مسکان نے شیرنی کی طرح اس لیے نہیں دھاڑا کہ اس کو شہرت مل جائے، اس کی ویڈیو وائرل ہوجائے بلکہ ایسا اس نے یہ سب ایک مقصد کے تحت کیا، وہ مقصد یہ ہے کہ اس کو اور اسکی باقی مسلم ساتھیوں کو حجاب پہننے کی اجازت دی جائے کیونکہ وہ پڑھنا چاہتی ہیں اور اس کے ساتھ اپنی مرضی سے اپنے دین کو فالو بھی کرنا چاہتی ہیں لیکن اس کو روکا جارہا ہے، اس کو اپنا حق ملنا چاہیئے۔
مسکان کی ویڈیو میں نے خود بھی دیکھی ہے جس طرح سینہ تھان کے وہ سکوٹی کھڑی کے واپس آتی ہے اور اپنے سامنے آنے والے جم غفیر کو دیکھتی ہیں تو اس کی آنکھوں میں کوئی خوف نہیں ہوتا، وہ جس نگاہ سے ان مذہبی انتہا پسند افراد کو دیکھتی ہیں اس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ کتنی دلیر ہیں اور والدین نے اس کو کیسی تربیت دی ہے کہ اس سماج اور انتہاپسندی کا کس طرح مقابلہ کرنا ہے۔
مجھے تو لگتا ہے کہ مسکان نے مذہبی انتہاپسندی کے منہ پر ایک زور دار تھپڑ رسید کیا ہے جس کو فراموش کرنا ممکن نہیں۔ صرف مسکان کو شاباش دینے سے بات نہیں بنے گی بلکہ وقت آگیا ہے کہ ہم مذہبی انتہاپسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے، انسانیت سے محبت کریں اور لوگوں سے انکے بنیادی حقوق چھیننے کی کوشش نہ کریں کہ مذہبی انتہاپسندی میں جانوں کے ضیاع اور نفرت کے علاوہ کچھ نہیں رکھا۔