بلاگزتعلیم

کیا مفت تعلیم کیلئے وزیرستان کی ہر لڑکی کو عاصمہ حافظ بننا پڑے گا؟

خالدہ نیاز

رات کو ایک نیوز گروپ میں میں نے ایک بچی کی تصویر دیکھی جو فٹ بال کو کک مار رہی تھی، اس تصویر کے ساتھ میں نے ایک خبر بھی دیکھی کہ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اس بچی کو مفت تعلیم دلانے کے احکامات جاری کر دیئے تو میں سوچ میں پڑ گئی۔ واقعی یہ اس بچی کے لیے بہت خوشی کی بات ہے کہ وہ اب مفت تعلیم حاصل کرے گی لیکن وزیرستان کی ان ہزاروں بچیوں کا کیا ہو گا جو اس بچی کی طرح پڑھنا تو چاہتی ہیں لیکن ان کے علاقے میں نہ تو سکول ہیں اور نہ ہی ان کے گھر کے حالات ایسے ہیں کہ وہ پڑھ لکھ کر ایک مقام تک پہنچ سکیں۔

یہ تصویر جنوبی وزیرستان کی عاصمہ حافظ کی تھی جو پچھلے سال وائرل ہوئی تھی۔ عاصمہ حافظ کا تعلق جنوبی وزیرستان کے دور دراز علاقے تنائی سے ہے جو اس وقت تیسری اور اب شاید چوتھی جماعت کی طالبہ ہے، اس تصویر کو اس وقت بہت شیئر کیا گیا تھا جس سے دنیا کو بھی ایک اچھا پیغام ملا کہ قبائلی اضلاع کی لڑکیوں میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن ان کو سہولیات دینے کی ضرورت ہے۔

خالدہ نیاز کے دیگر بلاگز

لڑکی نے پرائے گھر جانا ہے پڑھ لکھ کر کیا کرے گی

سیکس ایجوکیشن یا فحش گفتگو، ہم چاہتے کیا ہیں؟

وزیرستان کی پہلی خاتون صحافی کا پہلی خاتون میئر بننے کا خواب

کم عمری میں بیاہی جانے والی لڑکیاں اکثراوقات ذہنی مریض بن جاتی ہیں؟

جناب سپیکر صاحب نے بہت اچھا اقدام کیا ہے جو عاصمہ جیسی ٹیلنٹڈ لڑکی کا تعلیمی خرچہ اٹھایا ہے لیکن ضرورت، بلکہ حق کی بات کی جائے تو وہ یہی ہے کہ یہ سہولت ریاست کی ہر بچی کے لیے ہونی چاہیے کیونکہ تعلیم دلوانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ بدقسمتی سے اگر ہم دیکھیں تو قبائلی اضلاع میں شرح خواندگی خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم کی شرح آج بھی بہت کم ہے جس کی مختلف وجوہات ہیں، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ قبائلی عوام غربت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ دوسرے وہاں سکولوں اور ان تعلیمی اداروں میں سہولیات کی کمی ہے جبکہ کئی سکولوں کے اساتذہ گھروں میں بیٹھ کر تنخواہیں تو لے رہے ہیں لیکن ان کو بچوں کے مستقبل کی کوئی فکر نہیں ہے۔

اگر ہم دیکھیں تو ہمارے ملک میں ہر سیاسی جماعت دعوے تو بہت کرتی ہے کہ تعلیم کے لیے یہ کریں گے وہ کریں گے لیکن جب اس کی حکومت آتی ہے تو پھر وہ دعوے محض دعوے ہی رہ جاتے ہیں اور عملاً بہت کم کام دکھائی دیتا ہے۔ کچھ ایسا ہی عمران خا ن کے دور حکومت میں بھی ہو رہا ہے۔ دعوے تو تعلیم سمیت بہت سارے شعبوں میں بہتری لانے کے تھے لیکن بہتری کی بجائے ہر ادارہ ابتری کی تصویر پیش کر رہا ہے۔

بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) سروے کے مطابق خیبر پختونخوا میں 5-16 سال کی عمر کے 47 لاکھ بچے سکول سے باہر ہیں، ان میں سے دس لاکھ قبائلی اضلاع میں رہتے ہیں۔ سروے کے مطابق صوبے میں اسکول نہ جانے والی لڑکیوں کی تعداد 2.9 ملین ہے۔ سروے میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ 65.2 فیصد لوگ غربت کے باعث اپنے بچوں کو اسکول سے باہر رکھنے پر مجبور ہیں، جبکہ 15.2 نے اسے تعلیم کے کم معیار سے منسوب کیا ہے۔ اسکول سے باہر کے 12.1 فیصد بچے چائلڈ لیبر میں مصروف تھے ، 3.8 تعلیم حاصل کرنے کو تیار نہیں تھے اور 3.7 صحت کے مسائل کی وجہ سے سکول سے باہر تھے۔

سروے سے پتہ چلا صرف خیبر پختونخوا میں کئی لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں اور اس سلسلسے میں حکومت کو کتنا کام کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس ضمن میں سوچے گا کون اور کام کون کرے گا یہ سوچنے کی بات ہے؟

قبائلی اضلاع کی اگر بات کی جائے تو وہاں پرزیادہ تر لڑکیاں اس جدید دور میں بھی زیور تعلیم سے محروم ہیں، حکومت کو تعلیمی اداروں میں اصلاحات لانے کے ساتھ ساتھ وہاں پرعام لوگوں کی سوچ میں بھی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر سہولیات دی بھی جائیں اور لوگوں کی سوچ میں تبدیلی نہ لائی گئی تو بھی فائدہ کم ہو گا۔

فٹبال کو کک مارتی عاصمہ حافظ کو تو وائرل تصویر کے بعد تعلیم کا بنیادی حق مل گیا لیکن کیا قبائلی اضلاع کی ہر لڑکی کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے اس طرح کا کوئی ٹیلنٹ دنیا اور سوئے ہوئے حکمرانوں کو دکھانا ہو گا؟

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button