"ہیر کے مزار کی چھت پہ بارش کا پانی کیوں نہیں برستا۔۔۔؟”
حمیرا علیم
کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پہ ہیر کے مزار کے بارے میں ڈاکومینٹری نظر سے گزری جس کی ہیڈنگ تھی، "ہیر کے مزار کی چھت پہ بارش کا پانی کیوں نہیں برستا۔ جانیے اس ویڈیو میں!”
پڑھ کے ہنسی بھی آئی اور غصہ بھی۔ ہنسی اس لئے آئی کہ لوگ بھی کیسے ضعیف الاعتقاد ہوتے ہیں اور غصہ اس لئے کہ صرف اپنی ویڈیو کے ویوز بڑھانے کیلئے لوگ کچھ بھی کر گزرتے ہیں۔ اور کسی کو بھی اللہ تعالٰی جیسی خصوصیات دے کر انبیاء علیہم السلام سے بھی اونچا درجہ دے دیتے ہیں۔ جو کچھ انبیاء کے ساتھ بھی نہیں ہوا ہوتا وہ ان عام مرد و زن سے منسوب کر دیتے ہیں اور اللہ تعالٰی کے غضب سے ڈرتے بھی نہیں۔
ہیر رانجھا، سسی پنوں، سوہنی مہینوال، لیلی مجنوں ہوں یا رومیو جیولیٹ سب کو لوگ بزرگوں کی طرح مانتے ہیں، پسند کرتے ہیں اور فالو کرتے ہیں۔ خصوصاً نوجوان نسل جو ہر انفیچوئیشن کو عشق مان کر اپنی جان دینے کو تیار پھرتی ہے۔جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ سب لوگ گناہگار تھے اور حد کے مستحق تھے۔ انہوں نے غیرشرعی اور غیراخلاقی حرکات کیں۔ نامحرم سے خفیہ تعلق، گھر والوں سے چوری چھپے ملنا، شوہر اور والدین کو دھوکہ دے کر نامحرم سے ملاقاتیں یہ سب گناہ نہیں تو کیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے واضح الفاظ میں فرمایا: "ہاتھ بھی زنا کرتے ہیں اور ان کا زنا پکڑنا ہے۔” (ابی داود 484)
"آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے اور کانوں کا زنا سننا ہے اور زبان کا زنابولنا ہے۔ ہاتھ کا زنا پکڑنا ہے اور پاؤں کا زنا چلنا ہے۔ اور دل تمنا کرتا ہے، خواہش کرتا ہے۔ اور شرم گاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب۔” (مسلم 2657)
اس حدیث کی رو سے تو نامحرم سے بات چیت خواہ فون پہ ہی کیوں نہ ہو کان، زبان اور ہاتھ کا زنا ہے۔ اس سے ملنے جانا قدموں کا زنا ہے۔ پھر جو کچھ ان ملاقاتوں کا انجام ہوتا ہے وہ تو کنفرم ایسا گناہ ہے جس کی سزا اسی یا سو کوڑے اور شادی شدہ کیلئے رجم ہے۔ اس صورت میں کیا یہ لوگ کسی بھی مسلمان کا آئیڈیل ہو سکتے ہیں یا ہونے چاہیے ہیں؟ بجائے اس کے کہ ان کو تنبیہ کی جاتی، ان کی مذمت کی جاتی ان پر کتابیں، اشعار لکھ کر، فلمیں اور ڈرامے بنا کر انہیں ہیروز بنا دیا گیا اور ہر وہ کردار جو ان کو گناہ سے باز رکھنے کی کوشش کرتا تھا اسے ولن بنا دیا گیا جیسے کہ ہیر کا چچا کیدو، سسی کے بھائی وغیرہ۔
یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے نوجوان جہاد بالقلم، بالنفس، بالمال، بزبان اور قتال کی بجائے گانے گانے اور ناچنے کے ماہر ہیں۔اگر ارتغل بنا کر ترکی ساری دنیا کے بچوں اور جوانوں میں، بلاتخصیص مذہب، مقبولیت بھی حاصل کر سکتا ہے اور ان میں جذبہ جہاد بھی اجاگر کر سکتا ہے تو باقی مسلم ممالک ایسے لٹریچر اور ہیروز کو کیوں پرموٹ نہیں کر سکتے، کیوں صحابہ کرام اور انبیاء علیہم السلام کے متعلق بچوں اور جوانوں کیلئے ایسی کتب مرتب نہیں کی جا سکتیں اور انہیں پھیلایا نہیں جا سکتا جو ان کو اسلام پہ عمل پیرا ہونے کی رغبت دلائیں؟
میں ان معزز ہستیوں کے متعلق ڈرامے یا فلمیں بنانے کے حق میں نہیں ہوں۔ اگرچہ آج کل کے کچھ مبلغ اور موٹیویشنل اسپیکرز کی رائے میں چونکہ یہ میڈیا کا دور ہے تو ہمیں بھی میڈیا کا استعمال کر کے اسلام کی تبلیغ کرنی چاہیے مگر میری ناقص رائے میں جب ایک چیز سے اللہ نے منع فرما دیا ہے تو اس سے گریز ہی بہتر ہے۔ ویسے بھی اسلام 1400 سال سے بغیر کسی فلم، ڈرامے اور اینیمیشن کے پھیلتا رہا ہے تو اب بھی یقیناً ان کے بغیر بھی اس کی تبلیغ جاری رہے گی۔ ہاں ڈیجیٹل کتب، لیکچرز اور آڈیوز کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔
اللہ تعالٰی ہم سب پہ رحم فرمائے اور ہمیں دین کی سمجھ عطا فرمائے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
نوٹ: بلاگر کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
تعارف: حمیرا علیم بنیادی طور پر ایک افسانہ نگار ہیں، ان کا تعلق پنجاب سے ہے جبکہ وہ کوئٹہ میں مقیم ہیں، سماجی و دینی موضوعات سے متعلق مختلف رسائل، اخبارات اور ویب سائٹس کے لئے لکھتی ہیں۔