عیشا صائمہ
ثقافت کسی بھی معاشرے میں پائے جانے والے سماجی رویوں کا نام ہے۔ اس کے ساتھ ہمارے اخلاقی و معاشرتی رویے، علوم و فنون، عقائد، ہمارا رہن سہن، یہاں تک کہ لوگوں سے ملنا جلنا، ہمارا انداز گفتگو ،ادب، موسم، کھیل کود، شادی بیاہ اور دیگر رسومات ثقافت میں شمار ہوتی ہیں اس لئے ثقافت کسی بھی علاقے کے لوگوں کی تمام تر روایتی سرگرمیوں، ان کی زبان و انداز، ان کے عقائد کی عکاسی کرتی نظر آتی ہے اور لوگوں کا یہی ثقافتی معیار معاشرے میں قابل قبول طرز عمل کی وضاحت کرتا ہے۔ میڈیا بھی اس میں اپنا اہم کردار ادا کرتا ہے اور اپنی ثقافت کو پروموٹ کرتا ہے۔
پہلے پہل ڈرامے بھی ایسے بنتے تھے جو ہماری ثقافت اور رسم و رواج کے عین مطابق ہوتے، جن میں ایک سبق پوشیدہ ہوتا تھا تاکہ دیکھنے والے اپنی روایات اور عقائد کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ جو روایات غلط تھیں ان کی نشاندہی کر کے ان کو چھوڑنے کی تلقین ایسے کی جاتی کہ کسی کو برا بھی نہ لگے، عقائد پر کبھی کمپرومائز نہیں کیا گیا اور نوجوان نسل کو بے راہ روی سے بچانے کے لئے موٹیوشنل کردار سامنے لائے جاتے لیکن آج کے دور میں میڈیا کے بڑھتے ہوئے استعمال نے جہاں عقائد کو نظر انداز کیا ہے وہیں ایسی روایات کو پروموٹ کیا جا رہا ہے جو ہماری ثقافت کا کسی طرح بھی حصہ نہیں ہیں۔ ان میں حرام رشتوں سے لے کر شادی بیاہ کی رسومات تک وہ کچھ دکھایا جا رہا ہے جو کسی طور درست نہیں۔ شادی سے پہلے اور بعد میں حرام رشتوں کا رجحان، گھر کا ٹوٹنا، طلاق، ساس بہو کی لڑائیاں، نند بھاوج کی دشمنی، ایک بہن کا اپنی بہن کے گھر نقب لگانا، مال و دولت کی ہوس، یہ تمام چیزیں معاشرے میں سدھار کی بجائے بگاڑ پیدا کر رہی ہیں کیونکہ اپنے عقائد اور اسلامی روایات کو چھوڑ کر دوسروں کے کلچر کو اپنایا جا رہا ہے جس میں حرام رشتوں سے تعلق میں کوئی پابندی نہیں بلکہ ایسے تعلق قائم کرنے کو فخر سمجھا جاتا ہے۔
پھر فنکشنز میں مخلوط گیدرنگ، ڈانس یہ سب ہماری نوجوان نسل کو تباہی کی طرف لے جانے کے لئے کافی ہیں۔ لباس کی مثال لیں۔ مرد یا لڑکے پورا، لباس زیب تن کئے نظر آتے ہیں جب کہ لڑکیاں اور خواتین نے آدھے جسم کو ننگا کرنے کو فیشن کا نام دے دیا ہے اور سرعام آ کر اپنے جسم کی نمائش کرتی نظر آتی ہیں۔ یہ چیزیں کسی طور ہماری ثقافت کا نہ حصہ تھیں اور نہ ہیں۔
آج ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ یہ جو مخصوص لوگ خود بے راہ روی کا شکار ہیں اور سرعام ایسی حرکات کر رہے ہیں ان پر پابندی عائد ہونی چاہیے۔ شادی بیاہ میں جہاں اسراف سے کام لیا جا رہا ہے وہاں نازیبا حرکات کر کے عام لوگوں یا نوجوان نسل کو کیا تاثر پیش کیا جا رہا ہے۔ جو کل قوم کے معمار بنیں گے اگر آج ان کے ذہنوں کو غلط روایات اور پراگندہ خیالات کی نذر کر دیا گیا تو وہ کبھی تعمیری سوچ کے مالک نہیں بنیں گے۔
سو ہمیں صرف سوچنے کی نہیں بلکہ عمل کی ضرورت ہے کہ ان خرافات سے خود بھی بچا جائے اور آنے والی نسلوں کو بھی اس سے بچا کر ان کے ذہنوں میں صحیح عقائد کو راسخ کیا جا سکے۔ اس کے لئے میڈیا کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہو گا تاکہ اسلامی روایات اور اپنی ثقافت کو بہتر طور پر سامنے لایا جا سکے اور دوسروں کی تقلید کی بجائے اپنے عقائد اور روایات پر فخر کرنے اور اسے اپنانے میں کوئی بھی عار محسوس نہ کرے۔