خانہ بدوش کس حال میں ہیں جن کے پاس شناختی کارڈ ہے نا دیگر قانونی دستاویزات!
سبحان اللہ
موسم کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ خانہ بدوش بھی اپنا ٹھکانہ تبدیل کرتے ہیں۔ مال مویشی و دیگر سامان کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا کافی پیچیدہ عمل ہے، نئی جگہ میں رہائش پذیر ہونا اہل علاقہ کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں بھی کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان تمام مسائل کے علاوہ جو سب سے بڑا مسئلہ ان کو درپیش ہے وہ شناختی کارڈ کے حصول کا ہے۔ شناختی کارڈ بنانے کیلئے خانہ بدوشوں کو انتہائی کٹھن مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سروے کے مطابق 52 فیصد خانہ بدوش کے پاس شناختی کارڈ موجود ہیں جن میں زیادہ تر افراد ایسے ہیں جنہوں نے غیرقانونی طریقے سے شناختی کارڈ حاصل کئے ہیں، 28 فیصد لوگ ایسے ہیں جن کے پاس برتھ سرٹیفیکیٹ اور دیگر شناختی کاغذات نہ ہونے کی وجہ سے نادرا ان کو شناختی کارڈ فراہم نہیں کر رہی۔
15 فیصد خانہ بدوش کا کہنا ہے کہ نادرا حکام کی جانب سے ان سے غیراخلاقی رویہ اختیار کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے نادرا دفتر جانے کو زیادہ ترجیح نہیں دیتے۔ اس کے علاوہ زبان اور بول چال کے مسائل بھی ہیں۔
سروے کے مطابق 5 فیصد لوگ ایسے ہیں جن کا کہنا ہے کہ نادرا دفتر بہت دور ہے اور ان کی آمدن اتنی نہیں کہ سفری اخراجات برداشت کر سکیں، ان میں صرف 15 فیصد لوگ ایسے ہیں جن کو شناختی کارڈ بنانے میں کسی قسم کا کوئی مسئلہ سامنے نہیں آیا باقی تمام خانہ بدوشوں کو کسی نا کسی شکل میں رکاوٹیں سامنے آئی ہیں۔
خانہ بدوشوں کا شمار ہمارے معاشرے کے ان لوگوں میں ہوتا ہے جو بمشکل دو وقت کی روٹی کماتے ہیں، یہ لوگ مزدوری اور دیہاڑی کرتے ہیں، کرونا وائرس کے دوران شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے یہ لوگ حکومتی امداد سے محروم رہ گئے تھے۔
اس کے علاوہ صحت کارڈ جس کی سب سے زیادہ ضرورت ان لوگوں کو ہے، ان کو میسر نہیں کیونکہ ان میں زیادہ تر افراد کے پاس شناختی کارڈ موجود نہیں، حکام کو چاہئے کہ ان لوگوں کو باآسانی اور قانونی طور پر شناختی کارڈ فراہم کریں اور نادرا حکام کو ان کے ساتھ اچھا رویہ رکھنے کی تلقین کریں۔