عارف حیات
اب اس کے بعد طالبان نے دوسرے نمبر سے میرے دوست کو فون کیا اور کہا میں کیوں پولیس چوکی سے بھاگا ہوں، اسلامی امارت میں اس کی سزا بہت سخت ہے اور آپ اپنا پتہ بتائیں ہم خود آپ کے پیچھے آ رہے ہیں۔ پاکستان میں اپنے اہم ذرائع سے رابطہ کیا جنہیں افغانستان میں بہت تجربہ ہے۔ میرے لئے سب سے پہلے کابل سے نکلنے کا پلان بنا لیا گیا۔ (گذشتہ سے پیوستہ)
پُل محمد خان کے علاقہ میں صحافی دوستوں کے ساتھ موجود تھا اور بار بار طالبان انٹیلی جنس والوں کی دھمکی آمیز فون کالز بھی آ رہی تھیں، ”جگہ بتاؤ تم کہاں ہو، ہم ابھی پہنچتے ہیں، اسلامی امارت کے قانون کی خلاف ورزی پر کوئی معافی نہیں”، کچھ ایسے ہی پیغامات بار بار موصول ہو رہے تھے۔ ڈر کے آثار تو مجھ سمیت میرے دوستوں کے چہروں پر بھی عیاں تھے۔
پاکستان سے اہم ذرائعوں نے دوبارہ میرے ساتھ رابطہ کیا اور بتایا کہ دس منٹ میں گاڑی اور بندے پہنچ رہے ہیں تیاری پکڑو۔ ایک باریش مضبوط جسم والا شخص گاڑی لے کر پہنچا، دعا سلام کے بعد پوچھا تمہارا سامان کہاں ہے، میں نے دیمہ زنگ علاقے کا پتہ دیا۔ گاڑی میں مجھے بٹھا کر منہ چھپانے کا اشارہ کیا۔ دیمہ زنگ پہنچا تو دوستوں نے گالیوں اور لعن طعن سے استقبال کیا لیکن گلے لگا کر رونے بھی لگے کیونکہ موت کے منہ سے بس بچ بچا کے ہی نکلا تھا۔ انہیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ میں زندہ کیسے نکلا ہوں، بیشتر دوست بھی موجودہ رہائش کی جگہ کچھ دنوں کے لئے چھوڑنے کا پلان ترتیب دے چکے تھے۔ مجھے سامان حوالے کر کے ایک عدد موبائل اور سم بھی رابطہ کے لئے تھما دیا، ”افغانستان سے زندہ بچ نکلے تو موبائل مردان میرے گھر بھیجنا اور نہ نکلے تو موبائل بھی تیرے ساتھ دفن ہو جائے گا۔” اداس منہ بنائے دوست نے کہا۔
میرے ساتھ پہلے سے موجود باریش بندے نے میرے دوستوں سے کہا کہ ان کو لیپ ٹاپ بھی دے دیں کیونکہ افغانستان سے نکلنے کے لئے اس کی ضرورت ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آیا مگر اشارے سے چپ رہنے کا کہا۔ لیپ ٹاپ بھی مل گیا۔ سامان حوالے کر کے مجھے ٹیکسی اسٹینڈ لایا گیا۔ باریش شخص گاڑی سے اترا اور کوئی دس ٹیکسی والوں سے بات چیت کی مگر سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ بحث کس بات پر ہو رہی ہے۔
آخر مجھے اشارہ کیا، میں سامان سمیت گاڑی سے نکلا، بڑا بیگ ٹرنک میں رکھا جبکہ لیپ ٹاپ ساتھ رکھنے کی ہدایت کر دی۔ اس ٹیکسی گاڑی میں پہلے سے دو مرد، ایک خاتون اور ایک بچہ پچھلی سیٹ پر موجود تھے یعنی ایک پوری فیملی بیٹھی تھی۔ مجھے بتایا گیا کہ راستے میں تمہیں کوئی بھی روکے تو فلاں ادارے کا نام بتا کر یہ کہہ دینا کہ وہاں آئی ٹی کی ملازمت کرتا ہوں، لیپ ٹاپ بھی دکھانا۔ ”جتنا کہا گیا ہے اتنا بتانا، باقی ڈرائیور کو کنٹرول نمبر دیا ہے جو بروقت اطلاع کرے گا، ہم منٹوں میں پہنچ جائیں گے۔” انگلی کے اشارے سے باریش شخص بتا رہا تھا۔
گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھا تو احساس ہوا کہ میں اسی خاندان کا حصہ ہوں، اب طالبان کی باقاعدہ حکومت بنی تھی تو بے شمار ناکے بھی قائم کیے گئے تھے۔ پل چرخی چیک پوسٹ پہنچا تو ڈرائیور نے آواز دی ”پامیل دے” یعنی فیملی ہے، طالبان فیملی والی اور خواتین سواریوں کی گاڑیوں کو زیادہ تر نہیں روکتے۔
ماہی پر کراس کیا تو چیک پوسٹ پر چیکنگ جاری تھی مگر ڈرائیور نے دی گئی ہدایات کے مطابق قرآن شریف کی تلاوت ٹیپ پر آن کر دی، طالب نے قرآنی آیات سنتے اور فیملی کو دیکھتے ہی جانے کا اشارہ کر دیا۔
سروبی چیک پوسٹ پر بھی یہی طریقہ اپنایا گیا۔ جس بھی چیک پوسٹ سے گزرتا تو مجھے فون کال آتی کہ آپ گزر رہے ہیں کہیں پر مسلئہ ہو تو اس نمبر پر رابطہ کریں، یعنی پاکستان میں موجود ذرائعوں نے مجھے نکالنے کے لئے مضبوط انتظامات کیے تھے۔
لغمان میں داخل ہوتے ہی طالبان کی گاڑیوں کی بھی تلاشی لی جا رہی تھی۔ یہاں فیملیز گاڑی کو بھی چیک کیا جا رہا تھا۔ سخت حالات کا اندازہ مجھے ٹیکسی ڈرائیور کے بدلتے رنگ سے ہو رہا تھا۔ ڈرائیور دبے الفاظ میں بتا رہا تھا کہ یہاں تو کسی کی چلتی نظر نہیں آ رہی۔ ڈرائیور مسلسل گاڑی کے ساؤنڈ سسٹم میں کبھی یو ایس بی تو کبھی ایس ڈی کارڈ ڈالتا، کچھ ڈھونڈنے میں لگا تھا۔ بات مختصر کہ اللہ کروٹ کروٹ جنت مولانا بجلی گھر کو نصیب کرے جن کی اسلامی قانون پر گرج دار آواز میں بیان نے اس چیک پوسٹ پر نیا پار کرا دی۔
جلال آباد میں داخل ہوتے ہی چیک پوسٹ پر طالبان نے ویلکم کیا مگر ڈر کی سوئی اوپر تھی۔ جلال آباد میں اپنے مقررہ مقام پر پہنچا تو میرا رابطہ پاکستان میں دوستوں کے ساتھ کرا دیا گیا۔ اگلی صبح ویسے ہی فیملی گاڑی میں مجھے بٹھایا گیا جس میں صرف دو خواتین اور ایک بچہ سوار تھے، اس گاڑی میں اس فیملی کا سربراہ میں دکھائی دے رہا تھا۔ ڈرائیو نے مجھے طورخم بارڈر پہنچا دیا۔ تیز قدموں کے ساتھ پیدل سرحد عبور کر رہا تھا، خوشی سے نہال تھا لیکن یہ خوشی بھی چند لمحوں کی تھی۔
سرحد پر افغانستان سائیڈ کے تنگ راستے میں جا رہا تھا کہ اچانک آواز سنی ”چس چس۔۔۔ چسس چسس۔۔ ”چرتہ زی”، (کہاں جارہے ہو)، طالبان انٹیلی جنس اہلکار نے دھیمی آواز میں کہا۔ یہ سن کر میرے ہاتھ پاؤں سُن ہو گئے اور ہکلاتے ہوئے کہا پاکستان جا رہا ہوں۔ بندوق کی نالی سامنے کرتے ہوئے طالب نے کہا کہ ”میں زندہ چھوڑ دوں تو پاکستان جاؤ گے۔” اس مقام پر صرف آواز نہیں، میرا کلیجہ، دل، گردہ اور جگر بھی بیٹھ گیا تھا۔ (جاری ہے)