بلاگزجرائم

پشاور کے گداگر گریڈ 21 آفیسر سے زیادہ کماتے ہیں!

افتخار خان

خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں بھیک مانگنے والے پیشہ ور گداگروں کے حوالے سے انکشاف ہوا ہے کہ گریڈ 20 اور 21 کے آفیسر کی تنخواہ سے زیادہ کماتے ہیں۔

انٹیلی جنس بیورو کی جانب سے ضلعی انتظامیہ کے ساتھ جمع کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پشاور میں مجموعی طور پر 1356 بھکاری ہیں جو کہ مختلف علاقوں میں سرگرم عمل ہیں۔ رپورٹ میں ان بھکاریوں کی یومیہ اور ماہانہ کمائی کا اندازہ بھی لگایا گیا ہے جس میں یونیورسٹی ٹاون، حیات آباد اور صدر کے علاقے ان کی کمائی کے بڑے اڈے قرار دیئے گئے ہیں۔ یونیورسٹی ٹاون اور حیات آباد جیسے پوش علاقوں میں ہر بھکاری کی یومیہ کمائی دس ہزار جبکہ ماہانہ تین لاکھ سے اوپر ہے، اسی طرح تجارتی مرکز صدر میں ان کی یومیہ اوسط کمائی چھ ہزار روپے تک ہے۔

اسی رپورٹ کی روشنی میں ضلعی انتظامیہ نے پشاور میں پیشہ ور بھکاریوں کے خلاف باقاعدہ مہم شروع کر دی ہے اور اب تک پچاس خواتین سمیت 150 سے زائد گداگروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے لیکن ان کے مستقل سدباب کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات نظر نہیں آ رہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ پہلے بھی کئی بار ایسی مہمات چلائی گئی ہیں لیکن چند ہی دنوں بعد راستوں، بازاروں، مارکیٹس، لاری اڈوں سمیت ہر جگہ یہی بھکاری دوبارہ نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔

کمشنر پشاور نے دعویٰ کیا ہے کہ گداگروں کے خلاف رواں مہم حتمی مہم ہو گی کیونکہ پچھلی مہمات کے برعکس اس مہم کے لئے کافی ہوم ورک کیا گیا ہے اور اس میں انٹیلی جنس بنیادوں پر کارروائی کی جا رہی ہے۔

کمشنر ریاض محسود کا کہنا ہے کہ ان گداگروں میں زیادہ تر دوسرے اضلاع سے آئے ہوئے ہیں جبکہ کچھ دوسرے صوبوں سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔ انٹیلی جنس رپورٹس سے معلوم ہوا ہے کہ پشاور میں پیشہ ور بھکاریوں کے 21 ٹھیکیدار ہیں جو کہ ان کو مختلف جگہوں پر رکھتے ہیں اور صبح اپنے متعلقہ مقام پر پہنچاتے ہیں اور شام کو واپس لے کر جاتے ہیں۔
ضلعی انتظامیہ کے ساتھ سپیشل برانچ کی جمع شدہ رپورٹ کے مطابق ان ٹھیکیداروں میں 6 کا تعلق قندوز افغانستان سے، پانچ کا ملاکنڈ، 2 کا بنوں جبکہ ایک، ایک کا تعلق لکی اور کوہاٹ سے ہے۔ دو ٹھیکیداروں کا تعلق سندھ اور ایک پشاور کا رہائشی بتایا جاتا ہے۔ ان میں سے 813 مقامی جبکہ 362 کا تعلق خیبر پختونخوا کے دوسرے اضلاع، 35 دیگر صوبوں جبکہ 37 افغانستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ 105 گداگروں کے حوالے سے سپیشل برانچ کو بھی کوئی معلومات نہیں ملیں۔

سپیشل برانچ اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ترتیب شدہ ڈیٹا کے مطابق ان گداروں میں 1191 محتاج اور مجبور جبکہ 164 پیشہ ور ہیں۔ ان گداگروں میں جو ٹھیکیداروں کے نرغے میں ہیں ان کی تعداد 262 بتائی گئی ہے جبکہ باقی 1088 بھیک مانگنے میں خودمختار ہیں۔ رواں مہم میں اب تک چار ٹھیکیدار گرفتار کئے جا چکے ہیں جبکہ باقی سترہ کو اشتہاری قرار دیا گیا ہے۔

اس سلسلے میں گلبہار سے گرفتار ایک نیٹ ورک کے حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ ان کے پاس سے ہنگو سے ایک اغوا شدہ بچی بھی برآمد ہوئی ہے۔ ایک ذمہ دار پولیس اہلکار نے بتایا کہ اس ضمن میں تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ گداگروں کے دیگر سرغنہ بھی گداگری کے لئے بچوں کے اغوا میں ملوث تو نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان نیٹ ورکس میں ایسے بھی ہیں جن کو خواتین چلاتی ہیں۔

گداگروں کے نیٹ ورکس اور ان کا طریقہ واردات

دنیا بھر کی طرح پشاور میں دو طرح کے گداگر پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو خودمختار ہوتے ہیں یعنی خود اپنے لئے بھیک مانگتے ہیں۔ ایسے افراد کچھ سفید پوش ہوتے ہیں جو کہ جاننے والوں سے چھپ کر کسی مجبوری کے تحت بھیک مانگتے ہیں جبکہ زیادہ تر عادی بن جاتے ہیں۔ گداگروں کی دوسری قسم وہ ہوتی ہے جنہیں ایک گینگ یا سرغنہ چلاتا ہے۔ انٹیلی جنس رپورٹ میں پشاور میں گداگروں کے 17 ٹھیکیداروں کا انکشاف ہوا ہے جس کا مطلب ہے کہ اس شہر میں گداگروں کے سترہ نیٹ ورکس ہیں۔

ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سپیشل برانچ کے ایک ذمہ اہلکار نے بتایا کہ ان گینگز کے پاس بچوں اور خواتین سمیت مستقل گداگر ہوتے ہیں جنہیں یہ دیہاڑی پر رکھتے ہیں۔ ان گینگز نے آپس میں شہر کے علاقے تقسیم کر رکھے ہوتے ہیں جہاں پر دوسرے گینگ کا گداگر نہیں جا سکتا اور نہ یہ لوگ وہاں آزاد گداگروں کو چھوڑتے ہیں۔ ان لوگوں کا ایک خاص مقام ہوتا ہے جہاں پر شام کو یہ جمع ہوتے ہیں اور جمع شدہ رقم سے اپنا حصہ رکھ کر باقی اپنے ٹھیکیدار کے حوالے کر دیتے ہیں۔ یہ ٹھیکیدار یا سرغنہ اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ جو بھکاری ایک دفعہ ان کے گینگ میں آ جاتا ہے انہیں پھر خودمختار نہیں ہونے دیا جاتا اور کوئی الگ ہو بھی جائے تو اس کو اتنا تنگ کرتے ہیں کہ وہ دوبارہ گینگ میں شامل ہونے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ ان گینگز میں چند ایسے ہیں جن کے سربراہان خواتین ہوتی ہیں۔ یہ گینگز زیادہ تر خانہ بدوشوں کے ہیں جو کہ جھونپڑیوں میں رہتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ان میں کچھ خواتین جسم فروشی میں بھی ملوث ہوتی ہیں۔

سپیشل برانچ کے اہلکار نے بتایا کہ جمعرات کے دن شہر بھر خصوصاً تجارتی مراکز میں ان گداگروں کی بھرمار نظر آتی ہے جس کے پیچھے بھی ایک وجہ ہے۔ چونکہ یہاں تاجروں کی جمعہ کو چھٹی ہوتی ہے اس لئے جمعرات کو اگرائی کی رقوم جمع کرتے ہیں اس لئے یہ گداگر وہاں "اپنا حصہ” لینے پہنچ جاتے ہیں۔

خانہ بدوش لڑکیاں، گداگروں کا سب سے منظم گروہ اور ان کی غیراخلاقی حرکتیں

پشاور شہر میں گداگری کے مراکز میں بس اڈے بھی سرفہرست ہیں جن میں زیادہ تر بھیک مانگنے والوں میں جواں سال خانہ بدوش لڑکیاں نظر آتی ہیں جو ہر آنے جانے والے مسافروں کو تنگ بھی کرتی ہیں۔

سوشل ویلفیئر کے ضلعی آفیسر یونس خان نے اس حوالے سے بتایا کہ ضلع میں گداگروں کا یہ گروہ سب سے منظم گروہ ہے۔ یہ لڑکیاں بھیک کے لئے نہ صرف مسافروں کو بہت تنگ کرتی تھیں بلکہ انہیں کپڑوں سے بھی کھینچتی تھیں جو کہ غیراخلاقی حرکات ہیں۔ سوشل ویلفئیر آفیسر نے یہ بھی الزام لگایا کہ ان میں کچھ لڑکیاں غیراخلاقی سرگرمیوں سے پیسے کمانے اور مختلف جرائم میں بھی ملوث ہیں جس کی بنا پر رواں مہم میں ان پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے اور رنگ روڈ اور موٹروے کے آس پاس ان کی جھونپڑیاں گرا کر انہیں صوبہ بدر کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ خانہ بدوش زیادہ تر صوبہ سندھ کے رہائشی ہیں۔

گداگر بچے، ہراسانی کے آسان شکار

پشاور میں گداگروں کے حوالے سے سپشل برانچ کی مرتب کردہ رپورٹ میں کمسن گداگروں کی مخصوص تعداد تو نہیں بتائی گئی ہے لیکن شہر کی ہر سڑک، مارکیٹ اور دوسری جگہوں پر ایسے سینکڑوں بچے نظر آتے ہیں۔ یہ کمسن گداگر نہ صرف لوگوں سے بھیک مختلف طریقوں سے بھیک مانگتے ہیں بلکہ ان میں چند ایک نے اب نئے طریقے بھی اپنائے ہیں جن میں مسواک، تسبیح، ماسک یا دیگر ایسی کم قیمت اشیا کا بیچنا سرفہرست ہے۔ ان بچوں سے لوگ خریداری کم کرتے ہیں اور بھیک میں پیسے زیادہ دیتے ہیں۔

پشاور کے سینئر صحافی فدا عدیل کا کہنا ہے کہ یہ کمسن بچے اور بچیاں مختلف قسم کے تشدد اور جنسی ہراسانی کا بھی آسان شکار ہوتے ہیں۔

سوشل ویلفئیر آفیسر یونس خان بھی اس بات کی تائید کی اور کہا کہ کچھ عرصہ پہلے سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو پر ایکشن لیتے ہوئے شہر کے ایک مصروف چوک سے درجن بھر بچوں کو اپنی تحویل میں لیا جو کہ فٹ پاتھ پر سو رہے تھے اور بے گھر بچوں کے لئے سوشل ویلفیئر کے ذیلی ادارے "زمونگ کور” منتقل کر دیا۔ بعد میں تحقیق سے پتہ چلا کہ ان بچوں میں چند ایک ہوٹلوں میں کام کرتے ہیں جہاں عام کام کے علاوہ ان سے مالش کا کام بھی لیا جاتا ہے اور ان کے ساتھ جنسی زیادتی بھی کی جاتی ہے۔ اسی طرح چند ایک ایسے تھے جنہیں اپنے والدین یومیہ کمائی کا ہدف دیتے تھے اور ہدف مکمل کئے بغیر وہ گھر نہیں جا سکتے تھے۔ ہدف کو مکمل کرنے کے لئے یہ بچے بعض اوقات جسمانی تعلق قائم کرنے یا چھوٹی موٹی چوریاں کرنے سے بھی باز نہیں آتے تھے۔

یونس خان نے شکوہ کیا کہ یہ بچے جب سڑکوں اور مارکیٹس میں بے یار و مددگار پڑے رہتے ہیں تو ان کا کوئی نہیں ہوتا لیکن جب حکومت ان کو سکول داخل کرتی ہے اور ہنر سکھاتی ہے تو والدین سمیت درجنوں رشتہ دار نکل آتے ہیں اور انہیں واپس لے جاتے ہیں۔

حقیقتاً محتاج گداگروں کا کیا ہو گا؟

ضلعی انتظامیہ کی انسداد گداگری مہم میں نہ صرف پیشہ ور بھکاریوں کے خلاف گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے بلکہ جو حقیقتاً محتاج ہیں وہ بھی اس مہم میں گرفتار کئے جا رہے ہیں۔

پشاور صدر میں بھیک مانگنے والی خاتون روبینہ (فرضی نام) کا دعویٰ ہے کہ وہ بھی بہت مجبوری کے تحت بھیک مانگتی ہیں۔ ان کا شوہر نشہ کرتا ہے جب کہ چھ بچوں کو پالنے والا کوئی نہیں۔ وہ خود بھی بے تعلیم ہیں، کئی گھرانوں میں کوشش کے باوجود صفائی ستھرائی کا کام بھی نہیں ملا تو مجبوراً اس "ناسور” میں آ گری، "مجھے روزانہ کی بنیاد پر لوگوں کی گندی نظریں چھبتی ہیں، کئی بار میں نے خودکشی کا ارادہ کیا لیکن پھر سوچتی ہوں ان بچوں کا کیا ہو گا، ان بچوں کے لئے تو میں نے اپنی عزت نفس داؤ پر لگا دی ہے اب ان کو جیسے بھی ہو پڑھانا لکھانا ہے۔”

روبینہ کا کہنا ہے کہ اگر حکومت انہیں کوئی باعزت روزگار فراہم کرے یا ان کے گھرانے کے لئے وظیفہ مقرر کر دے تو وہ گھر سے باہر قدم بھی نہیں رکھیں گی، "متبادل روزگار دیئے بغیر حکومت ہم سے کیسے یہ وسیلہ چھین سکتی ہے؟” انہوں نے پوچھا۔

دوسری جانب حکومت کے پاس اس سلسلے میں کوئی ٹھوس حکمت عملی نظر نہیں آ رہی اور گداگروں کو ہنر سکھانے کے لئے قائم کردہ دارالکفالہ بھی برائے نام ہی ہے۔

گرفتار گداگروں کے ساتھ کیا کیا جائے گا؟

خیبر پختونخوا انسداد گداگری قانون کے تحت گداگری ایک قابل سزا جرم ہے یعنی اگر کوئی شخص گداگری کا دھندا کرواتے ہوئے پکڑا گیا تو اُسے 5 لاکھ روپے تک جرمانہ یا ایک سال قید کی سزا دی جائے گی۔ قانون کے تحت گرفتار گداگروں کو صوبائی حکومت کی جانب سے قائم کردہ خصوصی مراکز "دارالکفالہ” بھیجا جائے گا۔ اِس سلسلے میں مجسٹریٹ معائنہ کار ہوں گے جو گداگروں کو ’دارالکفالہ‘ بطور سزا بھیجنے کے پابند ہوں گے جبکہ ’دارالکفالہ‘ میں گداگروں اور بے گھروں کے قیام و طعام کے علاوہ اُن کی تعلیم و تربیت کا بھی انتظام کیا جائے گا تاکہ وہ کسی پر بوجھ بننے کی بجائے اپنی مالی کفالت خود کرنے کے قابل ہو سکیں۔

لیکن دوسری جانب پشاور میں گداگروں کے خلاف جاری مہم میں گرفتار کسی بھی گداگر کو دارالکفالہ نہیں بھیجا گیا ہے اور نہ ہی ضلع میں قائم دارالکفالہ میں ان گداگروں کو رکھنے کی سہولت موجود ہے۔ ذرائع کے مطابق پشاور کے دارالکفالہ میں صرف 50 سے 60 تک افراد رکھنے کی گنجائش موجود ہے جبکہ قانون کے مطابق اس مرکز میں موجود افراد کے لئے تعلیم و تربیت اور ہنر سکھانے کی سہولت بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔

پشاور کے رہائشی اور سماجی کارکن قمر نسیم کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ دارسلکفالہ کے لئے حکومت کی جانب سے کسی قسم کا خاص بجٹ بھی مختص نہیں کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دارالکفالہ کے پاس اتنا بجٹ اور سہولیات نہیں ہیں کہ ان لوگوں کو تین وقت کا کھانا، رہائش اور دوسری سہولیات فراہم کرے۔

انسداد گداگری مہم کی سربراہی کرنے والے سوشل ویلفئیر ضلعی آفیسر نے بھی دارالکفالہ میں سہولیات کی عدم موجودگی کی تائید کی ہے۔

سوشل ویلفیئر کے ضلعی آفیسر یونس خان کا کہنا ہے کہ اس مہم میں تمام بھکاریوں کو دارالکفالہ نہیں بھیجا جا رہا بلکہ صرف کمسن گداگروں کو تحویل میں لینے کے بعد انہیں دارالکفالہ بھیجا جائے گا جہاں انہیں صرف چند دنوں کے لئے رکھا جائے گا اور چائلڈ پروٹیکشن کورٹ میں پیش کرنے کے بعد انہیں محکمہ سوشل ویلفیئر کے ادارے "زمونگ کور” بھیجا جائے گا جہاں پر ان کی نہ صرف رہائش اور کھانے پینے کی سہولیات موجود ہیں بلکہ وہاں مقیم بچوں کو تعلیم اور مختلف ہنر بھی سکھائے جاتے ہیں۔

انہوں نے ”زمونگ کور” کے تعلیمی ادارے کے حوالے سے بتایا کہ وہاں 800 تک بچوں کے رکھنے کی گنجائش ہے اور ان کو بہترین ماحول فراہم کیا جاتا ہے۔

سوشل ویلفئیر آفیسر نے حالیہ مہم میں گرفتار شدہ پیشہ ور بھکاریوں کی رہائی کی بھی تائید کی اور کہا کہ ان کے خلاف باقاعدہ مقدمات درج کئے جا چکے ہیں لیکن پھر بھی عدالت کی جانب سے انہیں جلد ہی رہا کر دیا جاتا ہے، "اس ضمن میں ہم نے کمشنر سے بات کی ہے، وہ بہت جلد یہ معاملہ سیشن جج کے سامنے اٹھائیں گے اور انہیں درخواست کریں گے کہ ججز کو پیشہ ور بھکاریوں کو جلد ضمانت دینے سے منع کریں اور ان کی ضمانت کے لئے طریقہ کار مشکل بنا دیں، یہ لوگ کچھ عرصہ جیل میں گزاریں گے تو امید ہے کہ کچھ سبق حاصل کر لیں۔”

خیبر پختونخوا کے انسداد گداگری ایکٹ 2020 قانون کے تحت پہلی مرتبہ گداگری کے الزام میں گرفتار افراد کو ان کی عمر اور جنس کی تفریق کے بنا دارالکفالہ جبکہ عادی گداگروں کو جیل بھیجا جائے گا لیکن سوشل ویلفیئر آفیسر کا کہنا ہے کہ ان مین زیادہ تر عادی اور پیشہ ور گداگر ہیں اور ان کا دارالکفالہ بھیجنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ ان کی ہنر سیکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔

صحافی فدا عدیل حکومت عہدیداروں کے دعوؤں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایسی مہمات اس سے پہلے بھی کئی بار چلائی جا چکی ہیں لیکن یہ صرف چند دنوں کے شوشہ کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔

ٹی این این سے بات کرتے ہوئے فدا عدیل نے بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے صوبائی وزیر سماجی بہبود نے شہر کے مختلف چوراہوں، بس اڈوں، مارکیٹس اور دیگر مقامات پر منشیات کے عادی افراد کے خلاف بھی اسی طرح کی مہم شروع کی تھی اور درجنوں کو تحویل میں لے کر ان کا علاج معالجہ شروع کیا تھا لیکن آج ہم ان تمام نشئیوں کو دوبارہ ان چوراہوں وغیرہ پر دیکھتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ وہ مہم اور سب کچھ ایک ڈرامہ اور فوٹو سیشن کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ گزشتہ شب ایک بجے کے قریب بھی انہوں نے پشاور صدر میں درجن بھر گداگر بچوں کو دیکھا تھا جو کہ بی آر ٹی پل کے نیچے سو رہے تھے، ”اگر حکومت اس معاملے میں سنجیدہ ہے تو صدر جیسا بازار اب تک اس کی نظروں سے کیوں اوجھل ہے۔”

سینئر صحافی نے مزید نکتہ چینی کرتے ہوئے بتایا کہ جن علاقوں سے پیشہ ور گداگروں کو تحویل میں لیا گیا ہے چند دن بعد وہاں یہ تمام لوگ دوبارہ نظر آئیں گے، "انتظامیہ ان گداگروں کی پکڑ دھکڑ جاری رکھے گی، انتظامیہ گرفتاریاں کرے گی، عدالت رہا کر دیا کرے گی اور اسی طرح چند دن بھی یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا اور گداگروں کے بھیک مانگنے کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو جائے گا۔”

لیکن سماجی بہبود کے ضلعی آفیسر اس حوالے سے پرامید ہیں کہ اس آپریشن کے بعد گداگروں کے گروہوں کا دوبارہ اکٹھا ہونا اگر ناممکن نہ ہوا تو بے انتہا مشکل ضرور ہو گا، ”دیگر اضلاع اور صوبوں کے پیشہ ور بھکاریوں کو گرفتار کرنے کے بعد انہیں ضلع اور صوبہ بدر کیا جاتا ہے اور شہر کے داخلی راستوں پر ناکوں پر ان کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے تا کہ انہیں دوبارہ شہر میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔”

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button