شیو کریں یا داڑھی رکھے، افغان عوام مخمخصے کا شکار
عارف حیات
رپورٹنگ کے دوران کابل میں مقیم دوستوں کے ساتھ ملاقاتوں کاسلسلہ بھی جاری تھا، سب کے منہ پر ایک فقرہ تو جیسے چپک ہی گیا تھا۔ ” آپ جمہوریت کے دنوں میں آتے تو پھر کابل کے شہر نو کی رونق کا اندازہ ہوجاتا” ۔ کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد یہاں کی رونقین ماند پڑ گئی۔ شہر میں سر شام تمام بڑے مالز بند ہوجاتے اور سڑکوں پر سناٹا طاری ہوجاتا تھا۔
خوف کے سایے میں رات کو کابل شہر میں ہوا خوری کیلئے نکلا تو اکثر رہائشی عمارتوں میں بتیاں بند تھی،معلوم کرنے پر پتہ چلا ان خوبصورت عمارتوں کے باسی بے یقینی کی صورت میں کابل کو خیر آباد کہہ چکے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب شاپنگ مالز، ملبوسات کی دکانیں اور ہوٹل خالی پڑے ہیں۔
قریبی دوست نے بتایا کہ شہر میں متعدد مقامات پر جدید طرز کے سوئمنگ پول بنائے گئے ہیں جہاں لوگ ہر شام چند لمحات گزانے کو آتے ہیں۔ اب شام کو سوئمنگ پول کے پانی سے محظوظ ہونا تو دور کی بات اس کے سامنے سے گزرنا بھی خطرے سے کم نہیں۔
کابل میں جگہ جگہ شیشہ کیفے قائم تھے جہاں رات کو دیر تک خوش گپیوں اور خوشبودار دھواں اڑانے کا سلسلہ جاری رہتا لیکن اب ان تمام کیفیز میں قبرستان جیسی خاموشی طاری ہے۔
افغانستان میں جس دوست سے بھی ملا تو اسکے چہر ے پر ہلکی داڑھی دکھائی دی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ کے حجام ایک ہفتے سے احتجاج پر ہیں جب بھی کسی سے پوچھتا تو پشتو میں ایک ہی جواب سننے کو ملتا۔ "دہ دو ہ جمعوں گیرا دہ بس” یعنی دو ہفتوں سے شیو نہیں کی ہے، شائد لوگ داڑھی کے بارے طالبان کے حکم کے انتظار میں تھے۔ کابل کے پوش علاقوں میں تمام ہئیر ڈریسرز کی دکانیں خالی پڑی تھیں، حجام کی دکانیں دن کے اوقات میں تو ویران رہتیں اور شام کو صرف بال کٹوانے والے آجاتے تھے۔
وہاں معمر حضرات کہتے تھے کہ طالبان کی پہلی حکومت میں داڑھی رکھنا لازمی تھا اسلئے اب ایسی صورتحال میں یہ لوگ کشمکش کا شکار ہیں کہ داڑھی رکھیں یا نہ رکھیں اور اگر رکھیں بھی تو کتنی لمبی ہونی چاہیے۔
افغانستان میں رپورٹنگ کے لئے تمام بین الاقوامی صحافیوں کے لئے محکمہ اطلاعات فرہنگ سے مکتوب (اتھارٹی لیٹر) کا حصول لازمی ہے۔ اسی اتھارٹی لیٹر لینے کے لئے شہر میں واقع اطلاعات فرہنگ کے دفتر پہنچا جہاں سے اتھارٹی لیٹر لے کر باہر نکل آیا تو آس پاس کے بازار میں سیر سپاٹا کرنے لگا۔ وہاں بھی فٹ پاتھ پر ایک دنیا آباد ہے اور کاروبار ہوتا ہے موبائل فون کے مختلف آلات کے نرخ معلوم کیے جو پاکستان جیسے ہی تھے۔
فٹ پاتھ پر بکنے والی جیکٹس دیکھنے شروع کئے جس میں بغیر آستین والے جیکٹ پسند آئی خریدنے کے لئے دکاندار سے بھاو تاو شروع کیا تو دوست نے کان میں کہا یہ نہ خریدو ۔ وجہ پوچھنے پر دوست نے بتایا کہ اس ڈیزائن کا جیکٹ پنجشیر والوں کی نشانی سمجھی جاتی ہے جبکہ اور اس وقت پنجشیر پر قبضہ کے لئے جنگ جاری تھی۔
اسی دوران اطلاع ملی کہ ائیر پورٹ کے باہر دھماکوں کی آواز سنائی گئی ہے اور ایمبولینسز کے سائرن سننے شروع ہوگئے۔ بھاگ کر ٹیکسی میں سوار ہوکر ائیرپورٹ کی جانب بڑھا تو مرکزی سڑک پر صرف لوگ بھاگتے نظر آئے ۔ ہر کوئی جان بچانے کے لئے دوڑ رہا تھا خواتین برقعوں میں گرتی پڑتی دوڑ رہی تھیں، کسی سے بھی وجہ پوچھنے پر ایک ہی جواب ملتا قیامت ہے تباہ ہوگئے۔
ائیر پورٹ کی طرف قریب پہنچنے پر دل دھلانے والے مناظر دکھائی دئیے، صرف عام لوگ نہیں بلکہ ائیرپورٹ پر موجود طالبان سیکورٹی فورس پر بھی ہیبت طاری تھی۔ ہر طرف بھگدڑ مچی تھی، نفسا نفسی ، ہر کوئی اپنے جسم کو ٹٹول رہا تھا کہ کس جگہ زخمی ہوا ہے۔ ہر طرف خون کے لتھڑے دکھائی دے رہے تھے،ان میں سے بیشتر لوگوں کو کچھ لمحہ پہلے ملک چھوڑنے کی دیر تھی ۔آہ و بکا اور چیخ و پکار سُن کر ہر کوئی کرب میں مبتلا تھا۔کچھ نوجوان زخمیوں کو سڑک کنارے لا رہے تھے تاکہ آسانی کے ساتھ ایمبولینس میں ڈال کر ہسپتال منتقل کیے جاسکیں۔ایک چھوٹی بچی چیخ رہی تھی جس پر نظر پڑی تو لگا شائد یہ زخمی ہوئی ہے میں تیزی سے قریب گیا تواس نے کانوں پر ہاتھ رکھے تھے ساتھ کھڑا ایک شخص بول رہا تھا کہ ماں باپ کہیں گم گئے ہیں اور دھماکوں کی آواز نے بچی کے کانوں پر اثر کیا ہے۔ (جاری ہے)