جب افغانستان سے نکلنے کے لئے دو لڑکیوں نے ایک ساتھ شادی کی آفر کردی
عارف حیات
کابل کی پامیر سینما کے اس پاس فٹ پاتھ پرزیادہ تر موبائل شاپس ہیں، لیکن یہاں رونق موسیقی کی مختلف دھنوں سے لگی رہتی تھی،موسیقی کے شوقین نوجوان یہاں ٹولیوں کی شکل میں دیکھے جاتے تھے جہاں وہ موبائل میں لیپ ٹاپ سے اپنے پسندیدہ ہندوستانی، فارسی اور پشتو گانے کاپی کرکے موبائل یا یوایس بھی میں محفوظ کرتے تھے۔ "کابل تہ زمہ دہ ماہی پر د سرہ” خیبرپختونخوا کے پشتو گلوکار کرن خان کی اواز جگہ جگہ گونجتی جس سے اس کی یہاں مقبولیت کا پتہ چلتا ہےجبکہ فارسی زبان کی سمجھ تو نہیں آتی مگر اس کی موسیقی دل کو کھینچ لیتی ہے۔
یہ اس وقت کا منظر تھا جب طالبان کو اقتدار سنبھالے تقریبا پندرہ دن ہوئے تھے اور اسکے اثرات بھی دکھائے دے رہے تھے،کچھ عرصے بعد دوبارہ کابل میں ٹھیک اسی مقام پرپہنچا تو منظرنامہ مختلف تھا، پ حالات کافی بدل گئے تھے، موسیقی کا تو نام و نشان نہیں تھا ساتھ ہی دکانوں میں لگی پینٹینگز اور فنکاروں گلو کاروں کی تصاویر بھی غائب تھی۔۔
البتہ اسلامی آمارات کی جوشیلی نظم گونج رہی تھی۔ موبائل شاپس تک پہنچا تو "سپیزلے امارات، زمونگ خکلے امارات، مدام دی وی اسلامی امارت” کے ترانے سنائی دیئے۔۔ سامنے دکان پر کھڑا شخص موبائل میں رنگ ٹونز کی آواز درست کررہا تھا اور ساتھ گنگنا رہا تھا جس کے بول تھے "سلام دی وی امارات”،یہی سے افغانستان کی فضاوں میں تبدیلی کا احساس ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: ‘طالبان ناشتہ کے علاوہ ہر وقت آئسکریم کھاتے ہیں’
"جب افغان طالب نے میرا میڈیا کارڈ دیکھ کر پوچھا (وٹ ہیری ڈینگ؟”)
قریبی بازار میں افغان سپیشل سوپ نوش کیا، قریب شاہ دو شمشیراں مسجد میں مغرب کی نماز پڑھی اور اپنی قیام گاہ کی طرف روانہ ہوا تو افغانستان میں مزید تبدیلیوں کے اندازے لگانے لگا، صبح کابل میں رپورٹنگ کے دوران اہم شخصیات سے ملاقات کے بعد شام کے وقت دیگر صحافی دوستوں کے ساتھ کابل شہر کے نو پارک کا دورہ کیا، قندوز، قندھار اور دیگر صوبوں سے بے گھر افراد جھونپڑیوں میں رہائش پذیرتھے، حیرت کے ساتھ افسوس ہوا کہ حالات کے جبرنے کیسے کیسے ماڈرن اور تعلیم یافتہ خاندانوں کو ان جھونپڑیوں تک پہنچایا ہے، یہاں موجود خواتین دیگر افغان خواتین سے مخلتف نظر آرہی تھیں، ان کے بات کرنے کا انداز، کپڑوں کا اسٹائل یہ تاثر دے رہا تھا کہ یہ سب پڑھی لکھی ہیں۔
شہرنو کیمپ میں ہر نئے آنے والے ہرشخص کے ارد گرد لوگ جمع ہوجاتے تھے کہ شائد یہ بندہ ان کے لئے خوراک یا ضرورت کا کچھ سامان لے آیا ہو،ان جھونپڑیوں میں قیام پزیر ہر مرد اور عورت کی الگ کہانی تھی۔ ایک جگہ پر پانچ خواتین کا بے سر وساماں گروپ دیکھا،جن میں تین جوان لڑکیاں بھی تھیں ،بات چیت میں پتہ چلا کہ ان کے گھر کے مرد قندوز میں جنگ کے دوران مارے گئے۔ ایک خاتون کے ساتھ دو بچے تھے جس کا شوہر مرچکاتھا اور خود بھی جسم پر تین گولیاں لگنے کے بعد زندگی کی جنگ لڑ رہی تھی۔ جب ان لوگوں کو اندازہ ہوا کہ ہم صحافی ہیں تو سب نے ہمیں اپنے موبائل نمبر دیے کہ اگر کچھ مالی امداد یا افغانستان سے باہر جانے کے لئے کوئی طریقہ بن سکے تو اس نمبر پر اطلاع دیں۔ ایک خاتون پارک میں سموسے بیچنے والے کو ہاتھ سے پکڑ کر میرے پاس بطور ترجمان لے آئی اور اسے دری زبان میں کچھ بتایا، لڑکے نے بتایا کہ خاتون افغانستان سے پاکستان نکلنا چاہتی ہے اور اس کام میں آپ انکی مدد کریں یہ خاتون اپنے گاوں میں این جی او میں کام کرتی تھی اور اب یہ ہر حال اور ہر قیمت پر افغانستان سے نکلنا چاہتی ہے۔
اب میں ہکا بکا ان کا منہ دیکھ رہا ہوں اور اس سوچ میں تھا کہ تمام سرحدات بند ہیں کیسے اور کہاں سے انکی مدد کروں۔ ان کے سامنے ہاتھ جوڑے اور اپنی طرف سے پوری کوشش کرنے کی تسلی دی،کیمپ میں میرے ساتھ موجود دوسرا صحافی دوست واپسی پر کافی افسردہ دکھائی دے رہا تھا، پیدل جاتے جاتے وجہ پوچھی تو بتایاکہ پارک میں خواتین کا کوئی پُرسان حال نہیں،ایک لڑکی نے درخواست کی کہ اسے افغانستان سے نکال دیں، آپ کے ساتھ شادی کے لئے بھی تیار ہوں جبکہ دوسری لڑکی نے کہا کہ اگر ہم دونوں سے آپ شادی کریں تو بھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ ساری عمر آپ کی خدمت میں گزار دیں گے، مگر اب اس مشکل گھڑی میں آپ کی مدد کا بدلہ ہم آپ سے صرف شادی کی صورت میں چکا سکتے ہیں،دوست کی اس روداد سے حالات کی سنگینی کا احساس ہوا، کہنے لگے ان خواتین کوکیا جواب دیتا کیا تسلی دیتا۔
ایک جانب ایسی بےبس خواتین اور دوسری جانب سڑکوں پر کھڑی طالبان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر حق مانگنے والی خواتین بھی دیکھی۔ خواتین پر پابندیوں کے بیانات سننے کے بعد بیشتر خواتین آرام سے نہیں بیٹھی اور احتجاج کا راستہ اپنا رہی ہیں،جو لوگ کہتے ہیں کہ جمہوریت کے بیس سال کے دوران افغانستان میں کیا بدلا۔۔ تو جناب یہی وہ بدلاو ہے کہ بیس سال قبل طالبان کی حکومت میں خواتین کواتنی آزادی حاصل نہیں تھی جبکہ اب خواتین اسلحہ سے لیس طالبان کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے انگلی کے اشارے سے دھمکیاں دے رہی ہیں۔
شہرنو سے واپس ٹیکسی میں بیٹھا تو اسلامی امارات کا احساس پھر سے ہوا ڈرائیور نے گاڑی میں موسیقی کی بجائے مدھم آواز میں ترانہ "تیار شی تیارشی، ورزو بہ وخو بہ، شڑو بہ د کفر لشکر” لگا دیا۔