مشران ہمارا قیمتی سرمایہ، ان کے تجربات سے سیکھنا چاہیے
شمائلہ آفریدی
جب میں کہیں سنتی ہوں کہ کسی بڑے بزرگ کی فوتگی ہوئی ہے تو مجھے بہت افسوس ہوتا ہے، میں یہ سوچتی ہوں کہ کس طرح ہمارے مشران، ہمارے بزرگوں کا سایہ ہم نئی نسل کے سر سے اٹھتا جا رہا ہے، اور کس طرح ہماری روایات، ثقافت اور ہماری تاریخ بھی ان کے ساتھ دفن ہوتی جا رہی ہے۔ دکھ اس بات پر ہوتا ہے کہ ہمارا یہ قیمتی سرمایہ ختم ہونے والا ہے، ہم نے ان کے تجربات سے کچھ نہیں سیکھا۔ ہم اپنی مصروفیات میں اس قدر ڈوبے ہوئے ہیں کہ ہم اپنے ان مشران سے کچھ سیکھنے سے بھی قاصر رہتے ہیں۔ ہمارے ان بزرگوں کے پاس طویل زندگی کا تجربہ ہوتا ہے، ہم ان سے بہتر زندگی کے وہ اسباق سیکھ سکتے ہیں جو ہم گوگل، یوٹیوب، فیس بک، ٹوئٹر، انسٹا گرام، کتابوں اور درسگاہوں سے بھی نہیں سیکھ سکتے۔
اللہ تعالی نے پشتونوں کی سرزمین کو پرکشش اور دلکش قدرتی مناظر، حسین وادیوں، تاریخی ورثے اور دلفریب ثقافتی روایات سے نوازا ہے۔ خیبر پختونخواہ کے ہر علاقے، ہر گاوں کے رسم ورواج اور ثقافتی روایات معاشرے کے ماتھے کے جھومر سمجھے جاتے ہیں۔ یہاں کی ثقافت نہ صرف منفرد و تاریخی روایات کی امین ہے بلکہ دور حاضر میں بھی اپنی ایک ممتاز حثییت رکھتی ہے۔ یہاں کی نہ صرف ثقافت منفرد ہے بلکہ صدیوں سے اس سرزمین پر بسنے والے ہمارے بہادر دلیر بزرگوں کا شاندار ماضی بھی اہمیت کی حامل ہے۔
نئی صدی کی پہلی پیڑی جوان ہو چکی ہے اور پچھلی صدی کے آخری لوگ جانے کی تیاری کر رہے ہیں اور کافی کوچ کر کے چلے گئے ہیں۔ پچلھی صدی کے ہمارے یہ مشران تاریخ کا ایک قیمتی سرمایہ اور اپنی نسل کے وہ آخری لوگ ہیں جن کی سوچ، ان کا لباس اور طرز زندگی جلد ناپید ہو جائیں گے، یہ وہ لوگ ہیں جو خالص اور ملاوٹ زدہ، کسی بھی شے کا فرق بتا سکتے ہیں، ہماری نئی نسل ترقی کی دوڑ میں جتنی تیزی سے آگے جا رہی ہے اتنی تیزی سے اپنا قیمتی اثاثہ پیچھے چھوڑتی جا رہی ہے۔
کچھ زیادہ عرصے کی بات نہیں ہے، ابھی دس بارہ سال پہلے بھی دیہی علاقوں میں حجرہ پشتونوں کی نئی نسل کیلئے اہم درسگاہ سمجھی جاتی تھی جہاں گاؤں کے تمام بچے اور نوجوان اپنے مشران سے نشست برخاست، طور اطوار، مہمان نوازی وغیرہ وغیرہ سیکھا کرتے تھے جبکہ گھروں کے اندر خاص طور پر سردیوں میں کچے کمرے میں آگ کے گرد بیٹھ کر بزرگ خواتین ذاتی تجربات اور واقعات اور پرانے قصے سناتی تھیں اور نوجوان خواتین یا لڑکیوں کو ان کے تجربات سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا تھا۔
ٹیکنالوجی کے اس دور میں ہم نے اپنے مشران کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ترک کر دیا، آج کے دور میں ہم ان طور طریقوں کو بھول چکے ہیں جو کبھی ہمارے بزرگوں کا خاصہ ہوا کرتی تھیں۔ ترقی صرف یہ نہیں کہ ہم ترقی کے میدان میں ایک دوسرے سے نکلنے کی دوڑ میں لگے رہیں بلکہ ہماری اصل ترقی تو یہ بھی ہی کہ ہم وقت کے نئے تقاضوں کے ساتھ ساتھ اپنی ثقافت اور تاریخ کو کیسے زندہ رکھتے ہیں۔
مشران اور بزرگوں کا احترام، ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور ان سے سیکھنا بھی پشتون روایات کا اہم حصہ ہے جسے ہم بالکل یکسر انداز کئے ہوئے ہیں، جہاں کہیں ہمارے بزرگ موجود ہوں کچھ وقت نکال کر ان کے تجربات سے سیکھنا چاہیے۔