بس بہت ہو چکا! اب افغانیوں کو بھی جینے کا حق دو
خالدہ نیاز
دفتر میں ایک مصروف دن گزارنے کے بعد میں ڈیڑھ گھنٹے کی طویل مصافت کرتے ہوئے رات کو نو بجے گھر پہنچی، میں کافی تھک چکی تھی، طبیعت خرابی کی وجہ سے بھی تھکاوٹ کچھ زیادہ لگ رہی تھی، چاہتی تھی کہ بس گھر پہنچتے ہی میں آرام کروں کیونکہ اگر بندہ رات کو صحیح طریقے سے سو نہ پائے تو پھر وہ دن کے وقت اپنی ذمہ داریاں بخوبی سرانجام نہیں دے سکتا۔
خیر میں جیسے ہی بیڈ پہ سونے کیلئے گئی اور موبائل میں وٹس ایپ کھولا تو میں نے چند ایسی تصاویر دیکھی جس نے میری نیندیں اڑا دی، یہ تصاویر ہمارے پڑوسی ملک افغانستان کے کابل ایئرپورٹ میں ہونے والے دھماکوں کی تھی، خون میں لت پت پڑی لاشیں جیسے سب انسانوں سے یہی سوال کررہی تھی کہ ہمیں کیوں مارا گیا؟ کیا ہمیں جینے کا حق نہیں ہے؟ کیا ہم انسان نہیں ہیں؟
افغانستان پہ جب سے طالبان نے قبضہ کیا ہے تب ہی سے وہاں ایک خوف کا سماں ہے لوگ وہاں رہنے کو تیار ہی نہیں ہے، افغانستان کے حالات سے پوری دنیا واقف ہے لیکن چند دنوں سے کابل ایئر پورٹ توجہ کا مرکز اسی لیے بنا ہوا ہے کہ وہاں پر لوگوں کا جم غفیر ہوتا ہے۔ سب اسی کوشش میں لگے ہیں کہ کسی بھی طرح افغانستان سے نکل جائے۔
اپنے ملک اور اپنی مٹی سب کو بہت پیاری ہوتی ہے پر افغانستان کے باشندے اب اس دہشت گردی، خون ریزی سے تنگ آچکے ہیں وہ اتنے پیاروں کو کھو چکے ہیں کہ اب ان میں اتنی سکت ہی نہیں کہ مزید لاشیں اُٹھائیں لیکن ان بدقسمت لوگوں کو کیا پتہ کہ وہ کہ فُل پروف سیکورٹی میں بھی ایئرپورٹ پر محفوظ نہیں ہے اور اچانک یکے بعد دیگرے دو خودکش دھماکوں کی نذر ہوگئے اور زندگی بچانے کی ارمان اپنے ساتھ لے گئے۔
میں نے ان میں سے کچھ ایسی تصاویر بھی دیکھیں کہ لوگ ائیرپورٹ کے باہر اسی آس میں کسی نالے میں بیٹھے ہوئے ہیں کہ شاید کوئی غیرملکی طیارہ انکو بھی یہاں سے لے جائے اور یہ لوگ بھی چند سانسیں پرامن طریقے سے لے سکیں لیکن شاید وہ کبھی ایس ایئرپورٹ سے بھی نہ نکل سکیں اور بے گناہ مارے جائیں گے۔
ایک تصویر پر نظر پڑی جس میں ایک خاتون جس کے کپڑے خون میں رنگے تھے اور اس کے ساتھ ایک لڑکی بھی کھڑی رو رہی تھی اس کے کپڑوں پربھی خون کے نشانات موجود تھے، خاتون کو روتا دیکھتے ہوئے دل خون کے آنسو رونے لگا ہے، کتنی بے بسی ہے اس خاتون کی آنکھوں میں غالبا اس نے ان دھماکوں میں کسی اپنے کو کھویا ہوا ہوگا کتنا مشکل ہوتا ہے کہ جب آپ کو کوئی اپنا یونہی چھوڑ کرچلا جائے جس کا کوئی قصور بھی نہیں ہوتا لیکن پھر بھی اس کو مار دیا جاتا ہے۔
یہ لوگ تو اس امید سے ایئرپورٹ آئے تھے کہ کہیں اور جاکر بس جائیں گے جہاں سکون کا سانس لے سکیں گے کیونکہ افغانستان میں تو انہوں نے صرف خون، لاشیں اور دھماکوں کی آوازیں ہی سنی ہے۔ زندگی کیا ہوتی ہے ان معصوم لوگوں کو کیا پتہ کہ دنیا کہاں پہنچ گئی ہے، انکو تو بس امن اور سکون کی تلاش ہے لیکن بدقسمتی سے دُنیا کے کئی ممالک اپنے مفادات کو مدنظر رکھ کر چاہتے ہی نہیں ہے کہ افغانستان میں بھی امن آئے۔
میں سونا چاہ رہی تھی پر مجھے نیند نہیں آرہی تھی کیونکہ جب بھی میں آنکھیں بند کرتی تو وہ تصاویر سامنے آجاتی۔ وہ روتی ہوئی عورتیں وہ بلکتے ہوئے بچے وہ قیامت سا سماں اور سوال کرتی آنکھیں۔
کابل ایئرپورٹ چند روز سے مسلسل سوشل میڈیا پہ ٹاپ ٹرینڈ بنا ہوا ہے کیونکہ کچھ ایسے مناظر دیکھنے کو ملے ہیں جو شاید ہی دنیا کے کسی ایئرپورٹ پر دیکھنے کو ملے ہو، جہاز میں بیٹھنے کے لیے لوگوں کی تگ و دو، مرنے کا خوف، جہاز کے پہیوں سے چمٹے ہوئے اپنی موت سے بے خبر نوجوان اور بہت کچھ جو رونگھٹے کھڑی کردے۔
دنیا بھر میں انسانی حقوق کے بڑے بڑے ادارے کیوں خاموش ہے؟ کیا افغانستان میں لوگ اپنے پیاروں کی لاشیں اسی طرح اٹھاتے رہیں گے؟ کیا مائیں اپنے بچے، بچے اپنے والدین اور بیویاں اپنے شوہروں کو مرتا ہوا دیکھیں گے؟ کیا ان لوگوں کے نصیب میں مرنا ہی لکھا ہے انکو جینے کا حق نہیں ہے؟
میں نے تو صرف کچھ تصاویر دیکھی ہے اور میں سو نہیں پائی جنہوں نے اپنوں کو کھویا ہو انکا کیا حال ہوگا سوچ سوچ کہ دل بیٹھا جارہا ہے۔
یہ سب اقتدار اور پاور کی جنگ ہے جس میں بے گناہ لوگوں کا خون بہایا جارہا ہے لیکن بہت ہوچکا اب بس اور نہیں ہونا چاہیئے، افغانیوں کو بھی انسان سمجھا جائے انکو باقی حقوق نہ سہی کم از کم جینے کا حق ضرور دیا جائے۔