دولت انسان کو سٹائل تو دے سکتی ہے لیکن تمیز نہیں
سدرہ ایان
ہم ایک ایسے معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں، ایک وہ جو اپنے سے چھوٹے لوگوں کو خود سے کم تر سمجھتے ہیں جبکہ دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو بڑے لوگوں سے خود کو کم تر سمجھتے ہیں۔
اکثر ان کو یہی شکوہ رہتا ہے بڑے گھرانے کی بیٹی تھی اس لیے اتنے اچھے گھر میں بیاہ کر چلی گئی یا بڑے گھرانے کا لڑکا ہے ذرا دیکھو تو اس کی شخصیت میں کیا نکھار ہے۔
ہم غریبوں کی بیٹیوں کے تو گھر ہی نہیں بستے، بیٹے تو بے چارے روزی روٹی کمانے کی خاطر گلی محلوں میں محنت مزدوری کرتے کرتے ضائع ہو جاتے ہیں۔
ایک اور بات جو ہم میں سے بہت سے لوگوں نے نوٹ کی ہو گی وہ یہ ہے کہ اکثر اپر کلاس کے بچے بہت ڈیسنٹ ہوتے ہیں، اتنے کہ مڈل کلاس والے لوگ انھیں دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔ جبکہ ان کے اپنے بچوں کو بات کرنے کا سلیقہ نہیں آتا۔ انہیں پتہ ہی نہیں ہوتا سب کے سامنے بیھٹتے کیسے ہیں، بات کیسے کرتے ہیں، کھانا کیسے کھاتے ہیں، وہ تو اگر کسی اور کو یہ سب اچھے طریقے سے کرتے ہوئے دیکھ لیں تو ان پر ہنستے ہیں۔ پھر ان کے بڑے گلہ کرتے ہیں کہ فلاں کے پاس اتنی دولت ہے ذرہ دیکھ تو سہی بچوں کو پال کیسے رہے ہیں ۔ یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ دولت انسان کو اچھی لائف سٹائل دے سکتی ہے لیکن تمیز نہیں۔ ہمیں جن کے بچے اچھے لگتے ہیں ان میں تمیز ہوتی ہے جو ان کے والدین نے ان کی اچھی تربیت کر کے انھیں سکھائی ہوتی ہے، جس کا دولت اور پیسوں سے دور دور تک کا کوئی واسطہ نہیں ہوتا ہے۔ اور نہ ہی ہماری غربت ہمارے بچوں کو بگاڑتی ہے۔ ہم اپنے بچوں کی تربیت پر توجہ نہیں دیتے اور یہی بے توجہی ہمارے بچوں کو بگاڑ دیتی ہے۔
یہاں ایک واقعہ شیئر کرنا چاہتی ہوں۔ کچھ دن پہلے میں سکول جا رہی تھی تو راستے میں، میں نے ایک گدھا گاڑی دیکھی۔ اس میں دو آدمی سوار تھے، ایک چھوٹا بچہ بھی تھا ساتھ میں جس نے انتہائی میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ دو دن سے ہاتھ منہ بھی نہیں دھوئے ہوں گے۔ ساتھ میں ان میں سے ایک آدمی گدھے کو تیز چلنے کے لیے پیٹ رہا تھا۔ اچانک گدھے کا پاؤں پھسلا یا کچھ ہوا اور گدھا گر گیا ساتھ میں وہ چھوٹا بچہ بھی اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور وہ بھی لڑھک کر گر گیا، وہ آدمی گدھا گاڑی سے اترا پہلے بچے کو پیٹنا شروع کیا اور ساتھ میں بچے کو گالیاں دینے لگا۔ پھر اس نے زمین پر آدھ پڑا اینٹ اٹھایا اور گدھے کو بری طرح مارنے لگا۔ مجھے دل میں درد محسوس ہونے لگا، یہ سب میرے لیے اتنا تکلیف دہ تھا، میں شاکڈ تھی، میرا ذہن اتنا ماؤف ہوا کہ بس چلتے چلتے انھیں صرف دیکھتی رہی۔ میں انھیں کچھ نہ کہہ سکی نہ میں کچھ کر پائی۔
اس وقت ایک ٹیچر کی حیثیت سے اس بچے کی کیفیت میں خوب سمجھ رہی تھی۔ اس بچے کی وہ حالت میں شائد کبھی اس طرح سے بیان نہ کر سکوں۔ احساس شرمندگی، ندامت، احساس کمتری، خوف و ڈر، بے بسی، آنکھوں میں آنسو اور گہری خاموشی!
ان گالیوں اور مار پیٹ میں بڑا ہو کر یہ بچہ کل کیا بنے گا؟ کیا یہ اپنے ان بڑوں سے محبت کرے گا؟ ان کے بڑھاپے میں کیا وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے گا یا کیا اس کے وہ بڑے اس سے اچھے سلوک کی امید رکھتے ہیں جنھوں نے سکول جانے کی عمر میں اس سے گدھا گاڑی چلائی، انہیں اچھی باتیں سکھاتے وقت گالیاں سکھائیں، پیار سے سمجھانے کے وقت میں مارا پیٹا۔
میرا یقین کریں تربیت کا امیری یا غریبی سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اگر گدھا گاڑی والا غریب تھا تو کیا وہ اپنے بچے کو منہ ہاتھ دھلوانا بھی نہیں سکھا سکتا تھا؟ اچھی طرح پیار سے بات نہیں سمجھا سکتا تھا؟ بچہ تو پھر بھی انسان تھا اگر وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا تو شائد یہ اس کی غلطی تھی کہ وہ ایکٹیو نہیں بیٹھا ہوا تھا لیکن وہ اس بے چارے گدھے کو کیوں اتنی بے رحمی سے مار رہا تھا۔ وہ اپنے بچے کو یہ سکھا رہا تھا کہ جانور کو مارنا اپنا حق سمجھے؟
معاشرے کے ان دو طبقوں کے لوگوں میں فرق یہی ہے کہ ایک طبقے کے لوگوں کے بچے جانوروں کو پالتے ہیں، پیار کرتے ہیں اور انسان جتنا خیال رکھتے ہیں جبکہ دوسرے طبقے کے لوگوں کے بچے گلی کوچوں میں کتوں، بلیوں کے پیچھے دوڑتے اور انہیں مارتے پیٹتے رہتے ہیں۔
ایک طبقے کے لوگوں کے بچے اگر جانوروں کو پیار سے رکھیں تو بہت سے لوگ تنقید کرنے بیٹھ جاتے ہیں کہ ان کی جگہ انسانیت کا خیال رکھیں، کسی غریب کو کھانا کھلائیں۔ معذرت کے ساتھ کچھ غریبوں کو کبھی یہ نہیں سمجھاتے کہ بے زبان جانوروں کے ساتھ اچھا سلوک کریں، ان پر رحم کریں شائد تمھارے حالات بھی ٹھیک ہو جائیں۔
میں سمجھتی ہوں کہ اگر ہم اپنے بچوں کو اچھا کھانا، پہنے کو اچھے کپڑے، رہنے کو اچھی جگہ نہیں دے سکتے تو انھیں سستے کپڑے سلیقے سے پہننا، صحیح طرح سے کھانا کھانا اور تمیز سے رہنا تو سکھا ہی سکتے ہیں ناں۔ میری نظر میں ان طبقوں میں فرق دولت پیدا نہیں کرتی، فرق اگر ہے تو صرف تربیت کا۔